سعودی خواتین کے علاقائی ملبوسات، ’متنوع اور ثقافت سے مالامال‘
سعودی خواتین کے علاقائی ملبوسات، ’متنوع اور ثقافت سے مالامال‘
جمعرات 24 مارچ 2022 7:33
سعودی فیشن ماہر نے کہا کہ ’تمام علاقوں کے ملبوسات میں بڑا فرق ہے(فوٹو العربیہ نیٹ)
سعودی عرب میں خواتین کے علاقائی ملبوسات میں ثقافتی تنوع اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ انسان اپنے ماحول اور طرز زندگی سے کس قدر متاثر ہوتا ہے۔
العربیہ نیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے سعودی فیشن ماہر ڈاکٹر فوزیہ اللحیدان نے کہا ہے کہ ’سعودی عرب کے ہر علاقے کے جغرافیائی تنوع اور موسمی اختلاف کے باعث ملبوسات میں بھی تنوع پایا جاتا ہے۔‘
’اسی اختلاف نے سعودی خواتین میں ملبوسات کی پسند پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے ہیں جو پہلے سے ہی نفاست اور زیب و زینت کی طرف مائل رہی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’خواتین کے ملبوسات میں کڑھائی اور موتی کا کام سعودی عرب کے بعض علاقوں میں بطور خاص نمایاں ہوا ہے۔ ایک تو اس کی وجہ علاقوں کا جغرافیائی اختلاف ہے اور دوسرا ثقافتی تنوع کا بھی اثر تھا۔‘
’پہلی نظر میں تو تمام علاقوں کے ملبوسات ایک جیسے ہی لگتے ہیں مگر حقیقت میں ان میں بڑا فرق ہے، جبکہ ان ملبوسات کو دیگر خلیجی ممالک کے مقابلے میں دیکھا جائے تو واضح فرق نظر آئے گا‘۔
سعودی فیشن ماہر نے کہا ہے کہ ’پہاڑی علاقوں میں رہنے والی خواتین کے ملبوسات مختلف ہیں، جبکہ ساحلی پہاڑی علاقے کے ملبوسات اور حجاز میں رہنے والی خواتین کے ملبوسات ان سے بالکل مختلف منفرد ہیں‘۔
’اسی طرح میدانی ساحلی علاقوں میں رہنے والی خواتین جیسے مشرقی ریجن کا علاقہ ہے وہاں کی خواتین کے ملبوسات منفرد اور نمایاں ہیں۔ جبکہ ان کے ملبوسات نجد اور خلیجی ریاستوں کے ملبوسات سے زیادہ قریب ہیں۔ اسی طرح حائل کے علاقے کی خواتین کے ملبوسات میں نجد اور عرب کے شمالی علاقوں کا رنگ نظر آئے گا۔‘
’اسی اختلاف اور تنوع کی وجہ سے سعودی عرب میں خواتین کے علاقائی ملبوسات ثقافتی طور پر بہت مالا مال ہیں۔‘
ڈاکٹر فوزیہ اللحیدان نے کہا ہے کہ ’نجد کے علاقے کو دیکھیں تو جغرافیائی طور پر یہ حائل کے علاقے کا پھیلاؤ معلوم ہوتا ہے، جبکہ اس کا مشرقی ریجن سے بھی گہرا تعلق ہے۔ ان تینوں علاقوں کے ملبوسات کا طرز ایک جیسا ہے جیسے کہ ملبوسات کے اوپر پہنے جانے والی زینت ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔‘
’نجد اور حائل میں ایک لباس بہت معروف ہے جسے النشل یا السحاب کہا جاتا ہے، یہ خاصہ طویل ہوتا ہے اور اس کی دم زمین میں گھسیٹ رہی ہوتی ہے، یہ لباس دونوں علاقوں میں ایک جیسا ہے بلکہ رنگوں میں بھی کوئی فرق نہیں۔‘
’یہ لباس گھر سے باہر جانے کے لیے پہنا جاتا ہے، اس کے دو پلو ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے اوپر رکھے جاتے ہیں، جبکہ اس کے بازو بہت کشادہ اور پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس کا گلہ گول ہوتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’اس کے اندرون والے حصے کو کرتہ یا دراعہ کہا جاتا ہے جبکہ اس کی شلوار بھی بہت کھلی اور کشادہ ہوتی ہے اور اس پر لکیریں بنی ہوئی ہوتی ہیں۔‘
ڈاکٹر فوزیہ اللحیدان نے کہا ہے کہ ’شمالی علاقوں میں خواتین کے ملبوسات کی اپنی پہچان اور رنگ ہے۔ یہاں زیادہ پسند کئے جانے والے لباس کو جبہ اور زبون کہا جاتا ہے۔‘
’یہ دو حصوں پر مشتمل لباس ہے جو عام طور پر باہر نکلنے کے لیے پہنا جاتا ہے۔اس کے دوسرے حصے کو مردونہ کہتے ہیں اور یہ اوڑھا جاتا ہے اور اس کی لمبائی ٹانگوں تک ہوتی ہے۔‘
’دیکھنے میں یہ جزیرہ عرب کے شمال میں واقع عرب علاقوں کے لباس کے زیادہ قریب ہے ۔ شاید حائل کے علاقے کے لوگ شمالی علاقوں کے ملبوسات سے متاثر ہیں یا ثقافتی میل جول کا اثر ہوگا۔‘
سعودی فیشن ماہر کا کہنا تھا کہ ’حائل کا ہی ایک لباس ہے جسے محثول کہا جاتا ہے ۔ اس لمبائی عورت کی لمبائی سے دو گنا زیادہ ہوتی ہے۔اس کا پلو عورت کی کمر سے لپیٹا جاتا ہے تاکہ بیلٹ کی طرح نظر آئے۔ لپیٹنے کے بعد اس کی لمبائی عورت کی لمبائی کے برابر کر دی جاتی ہے۔‘
’اسی طرح الزبون نامی لباس ہے جو باہر نکلنے کے لیے پہنا جاتا ہے، اس پر کسی طرح کا کوئی کام نہیں ہوتا، یہ بالکل سادہ ہوتا ہے۔ اس کے اندر زیر جامہ کے طور پر جبہ نامی لباس پہنا جاتا ہے۔‘
جبکہ مقطع اور کرتہ نامی لباس اہل نجد کے لباس کی طرح ہے۔ اسی طرح سر پر باندھنے اور منہ ڈھانپنے کے لیے مندیل یا شنبر اوڑھا جاتا ہے۔ یہ مستطیل شکل کا ہے اور کالے ریشم سے تیار ہوتا ہے۔
اس کی لمبائی دو میٹر اور چوڑھائی آدھا میٹر ہوتی ہے اور سر پر رکھ کر اوڑھا جاتا ہے جبکہ اس کی دونوں پلو دھاری دار ہوتے ہیں۔
جنوبی علاقے میں دو طرح کے لباس شہرت رکھتے ہیں۔ ایک قسم کا لباس عموماً گھر میں پہنا جاتا ہے جسے بصمہ کہا جاتا ہے جبکہ دوسرا باہر نکلنے کے لیے یا سماجی تقریبات کے لیے پہنا جاتا ہے جسے مشغول کہا جاتا ہے۔
سر پر باندھنے یا منہ چھپانے کے لیے بھی دو طرح کے دوپٹے ہیں، ایک ان لڑکیوں کے لیے جن کی شادی نہیں ہوئی، اسے مندیل کہا جاتا ہے جبکہ دوسرا شادی شدہ عورتوں کے لیے جسے شیلہ کہا جاتا ہے۔
شیلہ پر دستکاری اورکڑھائی کی جاتی ہے اور یہ رنگ برنگی ہوتا ہے، جبکہ حجاز کی طرح اس میں موتی نہیں لگے جاتے۔
ڈاکٹر فوزیہ اللحیدان نے کہا ہے کہ ’جازان اور نجران میں خواتین کے ملبوسات دیگر شہروں کے ملبوسات سے بہت منفرد ہیں کیونکہ یہ رنگ برنگی ہوتے ہیں اور عام طور پر کپڑا موٹا ہوتا ہے۔‘
ان میں صدرہ اور الوزرہ نامی ملبوسات بہت مشہور ہیں جبکہ سر پر اوڑھا جانے والا مندیل بھی اپنے رنگوں کی وجہ سے بہت منفرد ہے۔
حجاز کے رہائشیوں کا لباس اپنی پہچان رکھتا ہے جن کے لباس میں کڑھائی اور موتی کا کام بہت ہوتا ہے۔
حجاز میں خواتین کا لباس تین حصوں پر مشتمل ہوتا ہے، جبکہ ہوازن قبیلے کے ملبوسات نجد کے ملبوسات کے قریب ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں اس کے علاوہ اور بھی بہت سے ملبوسات ہیں بلکہ ہر علاقے اور ہر قبیلے کی اپنی پہچان ہے۔