پنجاب میں عثمان بزدار کی وزارت اعلٰی کہاں کھڑی ہے؟
پنجاب میں عثمان بزدار کی وزارت اعلٰی کہاں کھڑی ہے؟
بدھ 30 مارچ 2022 21:04
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
عثمان بزدار سے استعفیٰ لے کر پی ٹی آئی دوبارہ اپنا وزیراعلٰی منتخب کروا پائے گی بھی یا نہیں؟ (فوٹو: مسلم لیگ ق)
پنجاب کے وزیراعلٰی سردار عثمان بزدار سے وزیر اعظم عمران خان نے استعفی تو لے لیا ہے، لیکن وفاق میں نمبر گیم بدلنے کے بعد پنجاب کی سیاسی صورت حال بھی غیر یقینی کا شکار ہوچکی ہے۔
بدھ کے روز وزیراعلٰی پنجاب نے درجنوں اراکین صوبائی اسمبلی سے ملاقاتیں کیں اور ان کے دفتر نے تقریباً اتنے ہی وزیراعلٰی سے منسوب بیانات جاری کیے۔
تمام بیانات میں تقریبا یہی کہا گیا تھا کہ اپوزیشن کی منفی سیاست سے پاکستان کو نقصان پہنچا ہے اور انہوں نے استعفی وزیراعظم کی صدا پر لبیک کرتے ہوئے دیا ہے اور موقع آنے پر وہ آئندہ بھی ایسا ہی کرتے رہیں گے۔
تکنیکی اور قانونی طور پر کسی بھی صوبے کے وزیراعلٰی نے اگر استعفیٰ دینا ہوتا ہے تو وہ یہ استعفیٰ صوبے کے گورنر کو بھجواتا ہے، تاہم سردار عثمان بزدار کا استعفیٰ (بدھ کی رات تک) گورنر پنجاب چوہدری سرور کے دفتر کو موصول نہیں ہوا ہے۔
گورنر پنجاب کے دفتر کے مطابق جب بھی استفعیٰ آئے گا تو اس پر قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔
ترجمان وزیراعلٰی کے مطابق عثمان بزدار نے اپنا استعفیٰ پارٹی چیئرمین اور وزیراعظم عمران خان کو بھیجا ہے وہ جب مناسب سمجھیں گے مزید کارروائی کے لیے گورنر کو بھیج دیں گے۔
’میرے خیال میں وفاق میں جو صورت حال ہے وہ لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہو رہی ہے۔ خود وزیر اعظم عدم اعتماد کا سامنا کر رہے ہیں اس لیے کون سا کام کب ہوگا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔‘
ادھر پنجاب کے نئے نامزد وزیراعلٰی اور موجودہ سپیکر صوبائی اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی بھی اسلام آباد سے لاہور پہنچ گئے ہیں۔ انہوں نے لاہور پہنچتے ہی وزرا سے ملاقاتیں کی ہیں۔
سپیکر آفس سے جاری ہونے والے ایک بیان کےمطابق ’پرویز الٰہی نے لاہور پہنچتے ہی تحریک انصاف کے سینیئر وزرا سے مشاورتی ملاقات کی ہے۔ جن وزرا نے ملاقات کی ہے ان میں راجا بشارت، میاں اسلم، میاں محمود رشید، چوہدری ظہیر، راجہ راشد، سبطین خان اور مراد راس شامل ہیں۔‘
بیان کے مطابق وزرا سے پنجاب میں نئی حکومت سازی اور اراکین اسمبلی سے رابطوں کے بارے میں مشاورت کی گئی اور انہیں اس حوالے سے ٹاسک سونپے گئے۔
سردار عثمان بزدار کا استعفیٰ کب گورنر کو بھیجا جائے گا اور وہ اس عہدے سے کب دستبردار ہوں گے، اس حوالے سے سوائے وزیراعظم آفس کے کسی کو بھی معلوم نہیں۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ زبانی استعفے کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ آئینی اور قانونی ماہر سلمان اکرم راجا کہتے ہیں کہ ’زبانی کلامی استعفیٰ کوئی استعفی نہیں ہے اور نہ وزیر اعظم استعفیٰ لینے کے مجاز ہیں۔‘
’آئین میں درج طریقہ کار کے مطابق وزیراعلٰی نے استعفی صوبے کے گورنر کو بھجوانا ہوتا ہے۔ استعفی منظور ہونے کے بعد نئے وزیراعلٰی کو منتخب کیے جانے تک موجودہ وزیراعلٰی کو ہی کام جاری رکھنا ہوتا ہے۔‘
صوبوں میں وزرائے اعلٰی کے استعفی دینے کے کم ہی واقعات سامنے آئے ہیں۔ پنجاب میں اس کی ایک مثال دوست محمد کھوسہ کی ہے۔
جب اپریل 2008 میں ان کو مسلم لیگ ن نے وزیراعلٰی منتخب کیا، تاہم اسی سال جون میں شہباز شریف عدالتی کلین چٹ کے بعد اسمبلی میں آئے تو دوست محمد کھوسہ نے استعفیٰ دے دیا اور شہباز شریف وزیراعلٰی پنجاب منتخب ہوگئے۔
کچھ ایسی ہی صورت حال پنجاب میں دوبارہ درپیش ہے، تاہم اس دفعہ حکمراں جماعت تحریک انصاف ہے اور اس سے بھی اہم بھی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو اپنی ہی جماعت کے اندر سے بغاوت کا سامنا ہے، جو نامزد وزیراعلٰی پرویز الٰہی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
علیم خان گروپ نے اپوزیشن کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ اب ساری نظریں ترین گروپ پر ہیں کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔
یعنی عثمان بزدار سے استعفیٰ لے کر پی ٹی آئی دوبارہ اپنا وزیراعلٰی منتخب کروا بھی پائے گی یا نہیں۔