Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قومی اسمبلی: ’جدھر دیکھتا ہوں لوٹے ہی لوٹے ہیں‘

سنیچر کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپریم کورٹ کے حکم پر تین اپریل کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے شروع ہوا جس میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ بھی شامل ہے۔
تاہم توقعات کے برعکس اجلاس پورے ساڑھے دس بجے شروع ہوا تو اس میں ووٹنگ کے بجائے حکومتی اور اپوزیشن اراکین کی لمبی لمبی تقاریر اور ان کے درمیان وقفوں نے ارکان اسمبلی کے علاوہ پریس گیلری میں موجود صحافیوں کو بھی آزمائش میں ڈالے رکھا۔
کئی حکومتی اور اپوزیشن ارکان تو اجلاس میں ہی سو گئے جبکہ کچھ اپنے موبائل فونز پر وقت گزاری کرتے رہے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اپوزیشن کی طرف سے وزیراعظم کے متوقع امیدوار شہباز شریف آج سوٹ اور ٹائی پہن کر آئے تھے۔  
ان کے لیے وزیراعظم عمران خان بار بار کہتے آئے ہیں کہ ان کی اچکن سلی سلائی رہ جائے گی یعنی وہ وزرات عظمٰی کے عہدے پر نہیں پہنچ سکیں گے۔
 ایوان میں اپوزیشن کے 176 ارکان موجود تھے جبکہ 70 کے قریب حکومتی ارکان بھی شریک تھے۔ جب سپیکر اسد قیصر نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بولنے کی دعوت تھی تو پریس گیلری میں کسی نے کہا اللہ خیر تقریر بہت لمبی ہوگی۔
اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا ان کی تقریر گھنٹہ بھر جاری رہی تاہم ابتدائی تحمل کے بعد انہوں نے جارحانہ انداز میں تقریر کرتے ہوئے اپوزیشن پر دلچسپ انداز سے تنقید کرتے ہوئے سب کو خوب محظوظ کیا۔
 انہوں نے وزیراعظم کی جانب سے خارجہ پالیسی میں خودداری اور دلیرانہ موقف کی بھرپور تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آج قوم کو فیصلہ کرنا ہے کہ سر جھکا کر یا سر اٹھا کر جینا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ اپوزیشن رہنماؤں کو قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی میں مدعو کیا گیا تھا مگر وہ شریک نہیں ہوئے۔
 

 ایوان میں اپوزیشن کے 176 ارکان موجود تھے جبکہ 70 کے قریب حکومتی ارکان بھی شریک تھے (فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر)

وزیراعظم کے دورہ روس کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ عمران خان نے سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے روس جانے کا فیصلہ کیا تھا اور اس دورے میں پاکستان کی بہتری تھی مگر امریکہ سے قومی سلامتی کے مشیر نے پاکستان کے ہم منصب کو فون کر کے کہا کہ دورہ نہ کریں۔
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان چھوٹا سہی لیکن ایک خودمختار ملک ہے۔ جب دورے کا فیصلہ کیا  تو امریکہ کی طرف سے روکا گیا۔‘
وزیر خارجہ نے کہا کہ ’مراسلہ اصلی ہے، اپنے سفارت کاروں کی پیشہ ورانہ صلاحیت پر شک نہ کریں۔‘
 شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’لوگ اپوزیشن کے ایک ایک چہرے کو پہچان گئے اور یہ لوگ الیکشنز میں کیا منہ لے کر جائیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ اپنے ارکان کو پڑھانے کے انداز میں ایک ایک لفظ کر کے کہا کہ بولیں ’ایک ہوتا ہے ووٹ ایک ہوتا ہے نوٹ اور ایک ہوتا ہے کھوٹ‘ اب فیصلہ قوم کرے گی۔

 شاہ محمود قریشی نے ایوان میں ’کون بچائے گا پاکستان عمران خان عمران خان‘ کے پرجوش نعرے بھی لگوائے (فوٹو: قومی اسمبلی سیکریٹریٹ)

انہوں نے ایوان میں ’کون بچائے گا پاکستان عمران خان عمران خان ‘کے پرجوش نعرے بھی لگوائے۔
ان کے بعد بلاول بھٹو نے تقریر کی تو سب سے پہلے وزیر خارجہ پر ہی چوٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’وزیراعظم کو پہلے بھی خبردار کیا تھا کہ ان سے ہوشیار رہیں، یہ آپ کو پھنسا دیں گے اور ایسا ہی ہوا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وزیر خارجہ خود تین پارٹیاں بدل چکے ہیں اور دوسروں پر الزام لگاتے ہیں تو بتائیں کہ خود ہر دفعہ کتنے پیسوں میں وفاداری بیچی؟‘
بلاول نے کہا کہ ’حکومتی بینچوں پر 90 فیصد ایسے لوگ ہیں جو ہمیشہ پارٹی بدلتے رہے ہیں اور گذشتہ الیکشن میں زبردستی کئی لوگوں کو پی ٹی آئی کی طرف سے الیکشن لڑوایا گیا۔‘
اس موقع پر حکومتی خاتون رکن کنول شوزب نے بلاول بھٹو کو کہا کہ ’لوٹوں کے لیے پیچھے دیکھو پیچھے‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں جہاں بھی دیکھوں لوٹا ہی لوٹا ہے۔ اس پر ایوان سمیت پریس گیلری میں زوردار قہقہے گونج اٹھے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’عمران خان ہزار کوششیں کرلیں یہ بھٹو نہیں بن سکتے۔ جو مرضی کرلیں سیاسی شہید نہیں بن سکتے۔ یہ پہلے بھی سلیکٹ ہوئے اور ایک بار پھر فیض یاب ہو کر آنا چاہتے ہیں۔‘

حکومتی اور اپوزیشن اراکین کی لمبی لمبی تقاریر نے صحافیوں کو بھی آزمائش میں ڈالے رکھا (فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر)

انہوں نے سپکر سے کہا کہ میری بات نہیں ماننی تو نہ مانیں لیکن عدالت کی بات تو مانیں۔
آصف علی زرداری جو شازونادر ہی اسمبلی میں بولتے ہیں وہ آج بولے اور چند دلچسپ جملے کہے۔ انہوں نے کہا کہ ’آج ووٹنگ کا دن ہے۔‘
’ووٹ، ووٹ، ووٹ نتھنگ بٹ ووٹ۔‘
انہوں نے حکومتی بینچوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے کافی لوگ وہاں بیٹھے ہیں، وہ ایک روز واپس آجائیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ ’میں ان کی بندوق کی نالی پر میں ہوں۔
وہ شکاری بھی ہیں، کرکٹر بھی ہیں، ملک بھی صحیح چلا رہے ہیں آخر پھر کس بات کا رونا ہے۔‘
آصف زرداری کا کہنا تھا کہ ’پیپلز پارٹی ایک سیاسی یونیورسٹی ہے اور ایوان میں زیادہ تر اسی یونیورسٹی کے طلبہ بیٹھے ہیں۔‘
اسعد محمود اور شیریں مزاری نے بھی لمبی تقاریر کیں اور اجلاس افطار کے بعد ساڑھے سات بجے تک ملتوی ہوگیا۔

شیئر: