فلسطینی اور اسرائیلی ذرائع کے مطابق اگرچہ اس حملے میں کسی نقصان یا کسی کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ ’اس سے کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔‘
اسرائیل کی جانب سے یروشلم اور مغربی کنارے خصوصاً جینن میں حملوں کے بعد فلسطینی گروپوں کی جانب سے دی گئی دھمکیوں کے کئی ماہ بعد غزہ سے میزائل فائر ہوا ہے۔
فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیلی شہروں میں فائرنگ سے کئی افراد کے ہلاک اور زخمی ہونے کے بعد رمضان کے آغاز سے ہی شمال مغربی کنارے اور یروشلم میں صورت حال بگڑ گئی ہے۔
حماس نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ ’اگر اس نے مسجد اقصیٰ میں مسلسل خلاف ورزیاں جاری رکھیں تو پھر کئی محاذوں پر کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔‘
ادھر بیروت میں مقیم اسلامی جہاد کے سیکریٹری جنرل زیاد النخالہ، جنہیں ایران کی حمایت حاصل ہے، نے دھمکی دی ہے کہ ’اگر حملے بند نہ ہوئے تو وہ اسرائیل کا مقابلہ کریں گے۔‘
النخالہ کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل کی جانب سے غزہ کے لیے سہولیات کو روکنے کی دھمکیاں یروشلم اور مغربی کنارے میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر ہمیں خاموش نہیں کراسکتیں۔‘
غزہ میں حماس کے ترجمان حازم قاسم کا اسرائیلی بمباری کے بعد کہنا ہے کہ ’تصادم، جو کہ ہمارے لوگوں کا ایک فطری ردِعمل ہے اور غاصبانہ قبضے کے خلاف ان کی مزاحمت ہے۔‘
’ہماری مزاحمت یروشلم، غزہ، مغربی کنارے اور تنازعے کے تمام حصوں میں جاری ہے۔ اسرائیل کی جانب سے کچھ خالی جگہوں پر کی گئی بمباری ہمارے فلسطینی عوام کو یروشلم شہر اور مسجد اقصیٰ کے دفاع سے روکنے کی ناکام کوشش ہے۔‘
مقامی نیوز ویب سائٹس نے اسلامک جہاد کے ذرائع کے حوالے سے اسرائیل کو بدھ کی شام تک کی ڈیڈ لائن دی ہے کہ وہ غزہ سے عسکری گروپ کے دوبارہ سامنے آنے اور محاذ آرائی سے بچنے کے لیے الاقصیٰ پر حملے بند کر دے۔
یاد رہے کہ گذشتہ برس رمضان کے اختتام پر یروشلم میں اسرائیلی آبادکاری کی انجمنوں کے فلیگ مارچ کے بعد جھڑپوں کا آغاز ہوا تھا۔