’گزشتہ روز صبح دو مزدور ایک نجی جہاز کے نچلے حصے پر گئے، شام کو مزدوروں کے واپس نہ آنے پر تلاش شروع کی گئی، مزدور کام کے دوران جہاز کے بالکل نچلے حصے میں گئے جہاں سویابین تھا۔‘
فیصل سبزواری نے کہا کہ بحری جہاز کے مزدوروں کی ہلاکت کی وجہ معلوم نہیں، حقائق کا تعین کرنے کے لیے جہاز کے عملے، سٹیوڈور اور دیگر متعلقہ افراد کے بیانات ریکارڈ کیے جائیں گے۔
دوسری جانب مزدوروں کی ہلاکت کے بعد کیماڑی سمیت آس پاس کے علاقہ مکین خوف و ہراس کا شکار ہوئے ہیں۔
کیماڑی جیکسن مارکیٹ کے رہائشی 37 سالہ وقار حسین کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد ان کو 2020 کا وہ منظر یاد آیا جب زہریلی گیس پھیلنے کے بعد 14 افراد ہلاک اور تین سو زیادہ متاثر ہوئے تھے۔
’ہنستے کھیلتے کئی گھر ایک لمحے میں اجڑ گئے تھے اور انتظامیہ اسی طرح واقعے کو واضح نہیں کر رہی تھی۔‘
وکیل الرحمنٰ تقریباً دس سال سے بحری امور کی رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مزدوروں کے مرنے کے بعد علاقے میں تشویش پائی جاتی ہے۔ بندرگاہ پر کام کرنے والے اکثر مزدور اسی علاقے میں رہتے ہیں اور رات سے ہر شخص اس موضوع پر گفتگو کرتا نظر آرہا ہے۔
کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ترجمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ برازیل سے 62 ہزار میٹرک ٹن سویابین لے کر آنے والا بحری جہاز برتھ نمبر 12 اور 11 پر لنگرانداز ہے۔
’جہاز میں گیس نہیں پھیلی ہے۔ مزدوروں کی ہلاکت ہیچ میں گرنے سے ہوئی ہے۔ وی ہائے نامی جہاز 29 اپریل کو کراچی پورٹ پہنچا جس سے سویا بین اتارنے کا عمل شروع کیا گیا تھا جو ابھی تک جاری ہے۔‘
2020 میں پیش آنے والے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی لیکن دو سال بعد بھی واقعے کی کوئی تفصیلی رپورٹ یا واضح وجوہات سامنے نہیں آسکی ہیں۔