Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شام: تضامن میں 41 شہریوں کے قتل عام کا راز افشاء

تضامن قتل عام کے متاثرین کی ابھی تک عوامی سطح پر شناخت نہیں ہو سکی۔ فوٹو نیوز لائنز
شام کے دارالحکومت دمشق کے علاقے تضامن میں 2013 میں ہونے والے ایک خونی واقعے میں مجموعی طور پر اکتالیس شہریوں کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر ایک ایک کو بے دردی سے ہلاک کر دیا گیا تھا۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والی سٹوری کے مطابق ان قیدیوں کو دمشق کے مضافاتی علاقے میں  کھودے گئے گڑھے کے کنارے لایا گیا اور  گولی مار  کر  گڑھے میں دھکا دے دیا گیا۔
گڑھے میں گرائی گئی ان لاشوں کو ایک دوسرے کے اوپر ڈھیر کرنے کے بعد انتہائی بےرحمانہ انداز میں آگ لگا دی گئی۔
بشار الاسد کی حکومت کے وفادار شامی ملیشیا کے ارکان کے ہاتھوں ہونے والی اس لرزہ خیز قتل عام کی فوٹیج رواں سال اپریل میں برطانیہ کے گارڈین اخبار اور آن لائن نیو لائنز میگزین میں شائع ہونے کے بعد سامنے آئی ہیں۔
گذشتہ دنوں ملنے والی یہ فوٹیج اور ویڈیو ملیشیا کے قاتلوں نے شوقیہ طور پر خود بنائی اور اس ویڈیو کو ایک سینئر اہلکار کے لیپ ٹاپ سے دریافت کیا گیا ہے۔
جنوبی دمشق سے تعلق رکھنے والے صحافیوں اور کارکنوں نے اس ویڈیو کی آن لائن گردش کے بعد بتایا ہے کہ تضامن کا یہ قتل عام اس عرصے کے دوران علاقے میں واحد ظلم نہیں تھا۔

ہلاک شدگان کے اہل خانہ مزید انتقامی کارروائیوں سے بھی خوفزدہ ہیں۔ فوٹو عرب نیوز 

2012 اور 2013 کے دوران تضامن کے علاوہ یلدا اور یرموک کیمپوں کی چوکیوں پر راہ  گیروں کو حکومت کے حامی ملیشیا بے دردی سے گولیاں مار دیتے تھے یہاں تک کہ لوگوں کو ان کے گھروں میں بھی گولی مار دیتے رہے ہیں۔ مقامی رہائشیوں کے مطابق ان کی لاشیں اکثر وہیں چھوڑ دی جاتی تھیں۔
دمشق میں تضامن علاقے کے ایک فوٹوگرافر رامی السید نے بتایا ہے کہ ہم ان قتل عام اور لاشوں کو جلانے کے بارے میں سنتے رہے، ہمیں معلوم تھا کہ گرفتار ہونے والے کو غائب کر دیا جاتا اور زیادہ تر کو ہلاک کر دیا جاتا۔
اس دوران حکومت کی سرپرستی میں ملیشیاؤں نے2011 کی بغاوت کے نتیجے میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے دوران ماورائے عدالت قتل کیے تھے۔
دمشق میں تضامن کا علاقہ نسرین سٹریٹ ایسی ہی ایک ملیشیا کے گڑھ کے طور پر بدنام تھا جہاں بغاوت کے آغاز میں پرتشدد مظاہروں کو دبایا جاتا اور بعد میں جنوبی دمشق کے رہائشیوں کو حراست میں لے کر انہیں قتل کرنا شروع کیا گیا۔

یلدا اور یرموک کیمپ کی چوکیوں پر ملیشیا بے دردی سے مار دیتے تھے۔ فوٹو عرب نیوز

فوٹوگرافر رامی السید نے بتایا ہے کہ اب تک جن تمام متاثرین کی شناخت کی گئی ہے ان کے بارے میں معلوم نہیں کہ انہوں نے حکومت کے خلاف مظاہروں یا فوجی سرگرمیوں میں حصہ لیا تھا یا نہیں۔
شام کے انسانی حقوق کے مبصرین کا کہنا ہے کہ جنوبی دمشق میں چوکیوں کو عبور کرنے کی کوشش کرنے والے پورے کے پورے خاندان 2013 میں لاپتہ ہو گئے تھے جن میں بچے اور بوڑھے بھی شامل تھے اور جو آج تک نامعلوم ہیں۔
یہ وہ خاندان ہیں جو ان 102,000 شہریوں میں شامل ہیں جو2011 میں ملک میں بغاوت شروع ہونے کے بعد سے لاپتہ ہو چکے ہیں۔

جنوبی دمشق میں چوکیاں عبور کرنے والے پورے خاندان لاپتہ ہیں۔ فوٹو عرب نیوز

شامی نیٹ ورک فار ہیومن رائٹس کے مطابق لاپتہ شامی باشندوں کی کل تعداد میں سے تقریباً 85 فیصد کی جبری گمشدگی کے لیے حکومتی فورسز ذمہ دار ہیں۔
واضح رہے کہ تضامن قتل عام کے زیادہ تر متاثرین کی ابھی تک عوامی سطح پر شناخت نہیں ہو سکی کیونکہ ان کے اہل خانہ مزید انتقامی کارروائیوں کے خوف سے آگے آنے اور ہلاک شدگان سے  اپنے تعلقات کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔
ہلاک ہونے والوں کے بہت سے رشتہ دار یہ اعلان کرنے سے ڈرتے ہیں کہ انہوں نے ویڈیو میں اپنے پیارے کو پہچان لیا ہے کیونکہ وہ شامی خفیہ پولیس کے ظلم و ستم سے خوفزدہ ہیں۔
 

شیئر: