Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی آئی کو احتجاج کی اجازت، بحران حل ہو پائے گا؟

ابھی واضح نہیں ہوا کہ پی ٹی آئی کیا ایچ نائن گراؤنڈ میں ہی احتجاج کرے گی یا عمران خان کے اعلان کے مطابق ڈی چوک تک پہنچے گی (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی جانب سے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے حکومت کو پی ٹی آئی کے لیے اسلام آباد کے ایچ نائن اور جی نائن کے گراؤنڈ میں جلسہ گاہ فراہم کرنے کا حکم دے دیا ہے۔  
اس حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے حکومت کو تحریک انصاف کو سکیورٹی انتظامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔ تاہم پی ٹی آئی سربراہ عمران خان نے صوابی میں ریلی کی قیادت کرتے ہوئے ڈی چوک پہنچنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
ابھی واضح نہیں ہوا کہ پی ٹی آئی کیا ایچ نائن گراؤنڈ میں ہی احتجاج کرے گی یا عمران خان کے اعلان کے مطابق ڈی چوک تک پہنچے گی۔
تاہم احتجاج کتنا عرصہ جاری رہے گا، اس حوالے سے مدت کے تعین کے لیے عدالت نے ابھی کوئی حکم جاری نہیں کیا۔ عدالت نے فریقین کو ہدایت کی کہ مذاکرات کر کے نیک نیتی کا مظاہرہ کریں۔
عدالت کے فیصلے کے بعد ملک میں سیاسی بحران کے خاتمے میں کس حد تک مدد ملے گی۔ اس حوالے سے سیاسی تجزیہ کار زیادہ پُرامید نہیں ہیں۔
سیاسی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ کی جانب سے اجازت کے بعد اگر ملین یا دو ملین لوگ آ جائیں تو ان کے لیے کون سی جگہ کافی ہو گی؟ ہاں اگر اسلام آباد میں جلسہ کر کے واپس چلے جاتے تو پھر اور بات تھی۔ تاہم اگر وہ یہاں لمبے عرصے تک قیام کریں گے اور بڑی تعداد میں لوگوں کو آنے کی اجازت ملی تو راستے کیسے کھلیں گے؟‘
رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود ملک میں جاری سیاسی بحران حل ہوتا نظر نہیں آتا۔‘

احتجاج کتنا عرصہ جاری رہے گا، اس حوالے سے مدت کے تعین کے لیے عدالت نے ابھی کوئی حکم جاری نہیں کیا (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کی جانب سے جلسے کی اجازت نہ دینا بینادی حقوق سے متصادم ہے۔ اب حکومت کے پاس کوئی آپشن نہیں رہ جاتا۔‘
’سپریم کورٹ کے فیصلے سے حکومت کو نقصان ہوگا لیکن وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے تو مارچ روک لیا تھا مگر عدالت عظمیٰ کے احکامات کی وجہ سے ہمیں ماننا پڑا۔‘
سینئیر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا تھا ’گو کہ اب تک کسی حد تک حکومتی حکمت عملی کامیاب رہی کہ پی ٹی آئی کے لوگ اتنی بڑی تعداد میں نہیں نکلے۔ تاہم  ابھی شام تک مزید انتظار کرنا ہوگا کہ شاید گرمی کی شدت کم ہونے پر زیادہ تعداد سامنے آئے۔‘
’اخلاقی طور پر تو پی ٹی آئی کی فتح ہوئی ہے کیونکہ پورا دن ملکی میڈیا انہی کے خلاف شیلنگ اور پکڑ دھکڑ دکھاتا رہا۔ پابندیوں کے بعد تعداد کا اتنا فرق نہیں پڑتا۔‘
تاہم مظہر عباس متفق ہیں کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے کے باجود جاری سیاسی بحران ختم ہونے کے امکانات کم ہیں۔‘
اس سوال پر کہ کیا عمران خان کے اس احتجاج سے حکومت کو خطرہ ہے؟ مظہرعباس کا کہنا تھا کہ ’انہیں نہیں لگتا کہ حکومت کو اس احتجاج سے کوئی خطرہ ہے۔‘
یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں لانگ مارچ کے دوران راستوں کی بندش اور گرفتاریوں سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے عدالت سے کہا کہ ’میں نے عمران خان سے ہدایات لی ہیں اور انہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ہم عدالت کے احکامات پر عمل درآمد کریں گے اور پرامن احتجاج کریں گے جس سے عام شہریوں کی زندگی متاثر نہیں ہوگی۔‘

شیئر: