Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اچانک بینائی کھو دینے والی سعودی طالبہ نے کامیابی کیسے پائی؟

ابتہل الناصر آج ایک کامیاب زندگی گزار رہی ہیں (فوٹو: عرب نیوز)
ابتہل الناصر نامی سعودی طالبہ میڈیکل کی تعلیم کے پہلے سال میں تھیں جب وہ بیمار ہوئیں اور ان کی بینائی چلی گئی۔ ڈاکٹر بننا ان کا پرانا خواب تھا، انہیں احساس ہوا کہ شاید وہ زندگی کے کسی بھی شعبے کامیاب نہ ہو پائیں۔
سعودی عرب کے شہر قریط سے تعلق رکھنے والی  ابتہل الناصر نے عرب نیوز کو بتایا کہ وہ سوچتی رہیں کہ ان برسوں کی محنت کا کیا ہو گا۔
ان کے مطابق ’میں نے اس وقت بہت منفی اور پریشان کر دینے والی باتیں بھی سنیں۔ کچھ کہتے تھے کہ شکر کرو تم نے گریجویشن کر لی ہے جبکہ کچھ لوگ تو صرف ہائی سکول کی ڈگری ہی لے پاتے ہیں۔ یونیورسٹی کی پڑھائی مشکل ہے، جب تم دیکھ نہیں سکتیں تو پڑھائی کیسے کرو گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اور بھی بہت سے لوگ ایسی ہی باتیں کرتے تھے۔
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’میں سوچتی اور خود سے سوال کرتی کہ میرے خواب، میری خواہشیں، میری کوششیں سب کچھ بے کار چلا جائے گا؟ پھر میں نے فیصلہ کیا  کہ جو مرضی ہو جائے میں اپنی تعلیم پوری کروں گی۔‘
 سعودی عرب کی جنرل اتھارٹی کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں سات اعشاریہ ایک فیصد افراد معذوری سے دوچار ہیں جن میں آٹھ لاکھ 11 ہزار چھ سو 10 وہ افراد بھی شامل ہیں جن کو بینائی کے مسائل درپیش ہیں۔
تمام شہریوں اور رہائشیوں کو معیاری وسائل زندگی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سعودی حکومت معذور افراد کے حقوق کو تحفظ کو ترجیح دیتی ہے تاکہ ان کو تمام سہولتیں ملیں اور ان کا وقار بھی برقرار رہے۔

دیگر شہریوں کی طرح معذور افراد کو بھی تعلیم کے مساوی مواقع اور دیگر حقوق دینا سعودی حکومت کی ترجیح ہے (فوٹو: عرب نیوز)

 الناصر اور ان کے گھر والوں نے نابینا پن کو اعصاب پر سوار کرنے کے بجائے ایسی خیراتی تنظیموں، اداروں اور یونیورسٹیز کی تلاش شروع کی جو اس کے باوجود بھی معمول کی زندگی کی طرف لے جا سکیں۔
نیشنل ایسوسی ایشن آف دی بلائنڈ سے منسلک ماہرین، جس کو کفیف کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور بصارت سے محروم افراد کے  لیے کام کرتا ہے۔ اس کی جانب سے انہیں سکھایا گیا کہ کیسے بریل (چھو کر پڑھنے اور لکھنے کا نظام) کے ذریعے تعلیم حاصل کی جاتی ہے جبکہ ساتھ ہی یہ تربیت دی گئی کہ سفید چھڑی کے ساتھ محفوظ طور پر بغیر کسی مدد کے کیسے چلا جائے۔

ابتہال ال ناصر نے بینائی کھو دینے کے بعد بریل سسٹم کے ذریعے تعلیم حاصل کی (فوٹو: شٹرسٹاک)

ادارے کی جانب سے ابتہل الناصر کو یہ بھی سکھایا گیا کہ ڈیجیٹل ڈیوائسز بشمول سمارٹ موبائل فونز، کیسے استعمال کی جاتی ہیں جبکہ کمپیوٹر کو چھو کر اور آواز کی بدولت استعمال کرنے کا طریقہ بھی بتایا گیا۔
یہ چیزیں ابتہال ال ناصر اور ان کے گھروالوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھیں، ان کی بدولت نہ صرف وہ اپنے تعلیمی شعبے میں واپس آئیں بلکہ اپنے ساتھیوں سے آگے نکلنے کا حوصلہ بھی دیا۔
’میں یونیورسٹی واپس گئی، میں نے میڈیسن کا شعبہ چھوڑ کر بزنس ایڈمنسٹریشن میں داخلہ لیا اور لا میں سپیشلائزیشن کی، جس میں، میں نے ٹاپ کیا اور اسی سال ڈگری حاصل کی۔‘
اسی طرح ابتہل  الناصر نے انگلینڈ سے ایک ڈپلومہ بھی کیا۔ وہ اس وقت سعودی عرب کے ایک حکومتی ادارے کے ساتھ بطور ٹرینر بھی کام کر رہی ہیں۔
سات سال قبل جب انہوں نے بینائی کھوئی تھی تب سے اب تک ال ناصر نے 60 سے زائد کورسز مکمل کیے جبکہ وسیع پیمانے پر فورمز اور ایونٹس میں شرکت کی، جن میں اپنی یونیورسٹی کی نمائندگی کے مواقع بھی شامل تھے۔

’میں نے فیصلہ کیا جو مرضی ہو جائے میں اپنی تعلیم پوری کروں گی‘ (فوٹو: عرب نیوز)

وہ کہتی ہیں قمام فیلوشپ ایک ایسا تجربہ تھا جس نے زندگی بدل دی اور زندگی کے اہداف ایک نئے سرے سے متعین کر دیے۔
ابتہل الناصر اس وقت ایک بڑی لا فرم سے وابستہ ہیں جبکہ رضاکارنہ طور پر پرنس النود فاؤنڈیشن اور سعودی ایسوسی ایشن فار سپیش ایجوکیشن، جس کو جیسچر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کے لیے بھی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اسی طرح کنگ سعودی یونیورسٹی سے بھی منسلک ہیں جو جسمانی معذوری کے شکار افراد کو تعلیمی اور دوسری سہولتیں فراہم کرتی ہے۔
ان کے رضاکارانہ کام سے عیاں ہے کہ مقصد حاصل کرنے میں دوسروں کی مدد ہی ان کا اصل مقصد ہے۔ ناردرن بارڈر یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران انہوں نے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک سوسائٹی بھی بنائی جو معذوری کے شکار طلبا کے لیے فلاحی کام کرتی ہے۔
سعودی حکومت نے ایک قانونی فریم ورک تیار کیا ہے جو معذور افراد کو نقصان سے بچانے، تعلیم کے میدان میں مساوی مواقع کو فروغ دینے اور انہیں سماجی تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ ان کی صحت کے حوالے سے اقدامات پر مشتمل ہے۔

شیئر: