’خدارا تحقیق کرلیا کریں،‘ ڈی چوک کی پرانی ویڈیو وائرل
سابقہ احتجاج جلد ختم کردینے والے عمران خان حکومت کو نئی مہلت دے چکے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف کا لانگ مارچ دھرنے میں بدلے بغیر ختم ہوئے چھ روز ہو چکے تاہم حکومت اور سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت میں یہ بحث جاری ہے کہ لانگ مارچ کے دوران کس نے کسے تشدد کا نشانہ بنایا۔
پی ٹی آئی کا لانگ مارچ 25 مئی کو سابق وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں اسلام آباد پہنچا تو پی ٹی آئی چیئرمین نے اپنے اعلان کے مطابق اسے دھرنے میں بدلنے کے بجائے فورا ختم کر دیا تھا۔
لانگ مارچ کو روکنے کے لیے چھوٹے بڑے شہروں میں پی ٹی آئی ورکرز کے خلاف چھاپوں سمیت مختلف مقامات پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور احتجاج کرنے والوں پر شیلنگ و لاٹھی چارج بھی کیا گیا۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے مطابق اس دوران 1000 سے زائد مظاہرین کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی تھی۔
اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں 25 مئی کو پولیس اہلکاروں اور مظاہرین میں جھڑپیں رپورٹ ہوئیں تو مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال بھی کیا گیا۔
اسی دوران سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی سربراہ عمران خان اور پارٹی کے آفیشل اکاؤنٹ سمیت متعدد ٹویپس نے ایک ویڈیو شیئر کی جسے ’ڈی چوک پر احتجاج کرنے والے پی ٹی آئی ورکرز پر آنسوگیس کی شیلنگ‘ کے طور پر پیش کیا گیا۔
پاکستانی میڈیا رپورٹس میں یہ دعوی بھی کیا گیا کہ تحریک انصاف کی خواتین ارکان اسمبلی ملیکہ بخاری اور کنول شوذب نے اسی ویڈیو کو بنیاد بنا کر حکومت کے خلاف پریس کانفرنس بھی کی۔
ٹوئٹر اور فیس بک کے ساتھ مختلف واٹس ایپ گروپس میں شیئر ہونے والی یہی ویڈیو ٹیلی ویژن میزبان شفا یوسفزئی نے بھی 27 مئی کو ٹوئٹر پر شیئر کی اور لکھا کہ ’یہ فلسطین نہیں اور کشمیر تو بالکل بھی نہیں!۔‘
شفا یوسفزئی نے اپنی ٹویٹ میں یہ دعوی نہیں کیا کہ ویڈیو میں کون، کب اور کس پر احتجاج کر رہا ہے البتہ انہوں نے اس کی شیئرنگ کے لیے احتجاج ختم ہونے کے دن کا ہی انتخاب کیا۔ اپنی ٹویٹ میں انہوں نے ٹوئٹر صارفین سے پوچھا گیا ’کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ جگہ کون سی ہے؟‘
بعد میں 29 مئی کو سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی کے آفیشل ہینڈل سے بھی مختلف کلپس پر مشتمل چار منٹ 16 سیکنڈ کی ایک ویڈیو شیئر کی گئی، جس میں اسلام آباد کے ڈی چوک پر پولیس کی شیلنگ کے مناظر دکھائے گئے۔
کیا مظاہرین پر شیلنگ کی ویڈیو پی ٹی آئی احتجاج کی ہے؟
سوشل میڈیا پر تھوڑی سی سرچ کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ یہ ویڈیو ہے تو ڈی چوک کی ہی لیکن پی ٹی آئی کے 25 مئی کے احتجاج سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو گزشتہ برس فروری کی ہے جب پی ٹی آئی دور حکومت میں سرکاری ملازمین اسلام آباد کے ڈی چوک پر تنخواہیں بڑھانے کا مطالبہ لیے احتجاج کررہے تھے اور اس دوران پولیس کی جانب سے ان پر شیلنگ کی گئی تھی۔
وقاص علوی نامی صارف نے اس ویڈیو کو ری شئیر کرتے ہوئے لکھا یہ ویڈیو پی ٹی آئی کے دور حکومت کی ہے۔ انہوں نے مزید لکھا ’خدارا تحقیق کرلیا کریں۔‘
اس ویڈیو کو شیئر کرنے پر اینکرپرسن شفا یوسفزئی اور پی ٹی آئی کی رکن اسمبلی ملیکہ بخاری سمیت کئی افراد کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
سالار خان کا کہنا تھا کہ ’نہ ہی یہ فلسطین ہے نہ ہی کشمیر ! تشدد پہلے بھی غلط تھا اور آج بھی غلط ہے اس لیے تاریخ کو دہرایا نہ جائے۔‘
ٹوئٹر صارف شعیب نیازی نے لکھا کہ ’شفا جی یہ نہ تو کشمیر ہے نہ ہی فلسطین۔ یہ عمران خان کے دور حکومت 2021 کا اسلام آباد ہے۔‘
مختلف صارفین نے ڈی چوک کی ویڈیو کو غلط طور پر شیئر کیے جانے کی نشاندہی کی اور اس کی حقیقت واضح کی تو کچھ اکاؤنٹس نے اسے ڈیلیٹ کر دیا البتہ کئی اب بھی اسے شیئر کر کے پولیس کی شیلنگ کا ثبوت قرار دے رہے ہیں۔