Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

احتجاج کی اجازت کا حکم دیں، پی ٹی آئی کی سپریم کورٹ میں درخواست

 پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے دوسرے لانگ مارچ سے متعلق سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے۔
بدھ کو دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت وفاقی اور پنجاب حکومت کو احتجاج کے لئے اجازت کا حکم دے۔
’احتجاج کے دوران کسی کارکن کو گرفتار نہ کیا جائے اور راستے میں رکاوٹیں حائل نہ کی جائیں۔‘
تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومت کو تشدد اور طاقت کے استعمال سے روکا جائے کیونکہ اس کا مقصد کارکنان میں خوف و ہراس پیدا کرنا ہے اور اگر حکومت اس مقصد میں کامیاب ہو گئی تو یہ اظہار رائے، آئین اور جمہوریت کی نفی ہوگی۔ 
پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اسد عمر کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ’آئین براہ راست پاکستانی عوام اور ریاست کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔ آئین پاکستان درحقیقت عوام کی خواہش شہریوں کی آزادی، اظہار رائے، برابری، برداشت اور سماجی انصاف کا حق دیتا ہے۔ُ
’درخواست گزار ایک سیاسی جماعت ہے جو 1996 میں رجسٹرڈ ہوئی۔ تحریک انصاف کا منشور رہا ہے کہ پاکستانی عوام کے مفاد کے مطابق آزاد خارجہ پالیسی اور ملکی سالمیت کے مطابق ہو۔ پورے ملک میں بدعنوانی کا سدباب بھی تحریک انصاف کا منشور ہے۔‘
درخواست میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف نے ہمیشہ قانون کی حکمران، بنیادی حقوق کے تحفظ اور کرپشن کی روک تھام کے لیے جدوجہد کی ہے۔ 2018 کے رام انتخابات میں تحریک انصاف واحد جماعت تھی جس نے سب سے زیادہ نشستیں لیں۔ 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف نے وفاق کے علاوہ پنجاب اور کے پی حکومت قائم کی۔
’عمران خان ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تحریک انصاف کی حکومت اپریل 2022 تک قائم رہی۔ تحریک انصاف کی حکومت کو ایک مذاق، منصوبہ بندی اور سازش کے تحت لائی گئی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم کیا گیا۔ غیرقانونی طریقے سے وزیراعلیٰ پنجاب کو ہٹایا گیا اور غیرمنتخب اور نااہل فرد کو وزیراعلیٰ پنجاب کئ کرسی پر بٹھایا گیا۔‘
درخواست گزار کا کہنا ہے کہ ’سازش کے تحت رجیم تبدیل کرنے کے خلاف تحریک انصاف نے ملک بھر میں احتجاج کیا۔ آئین میں شہری حقوق کے مطابق تحریک انصاف کا احتجاج پر امن رہا۔ درخواست دائر کرنے کا مقصد آئین کی تشریح اور عوامی نوعیت کے سوالات سے متعلق ہے۔‘
’پرامن احتجاج کی ضمانت آرٹیکل 15, 16, 17 اور 19 میں دی گئی ہے۔ پرامن احتجاج اور اظہار رائے کے ذریعے سے ہی قائداعظم کی قیادت میں پاکستان نے برطانوی سامراج سے اور ہندوؤں کی اکثریت سے آزادی حاصل کی تھی۔‘

’سیاسی کارکنوں اور قائدین کے گھروں پر چھاپے مارے گئے‘

درخواست میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت میں ہی پیپلز پارٹی، ن لیگ اور جے یو آئی نے مختلف اوقات میں ریلیاں نکالیں، جلسے کیے اور احتجاج کیا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے کبھی ان جلسے جلوسوں پر پابندی عائد نہیں کی۔ 
’جب عمران خان کو سازش کے تحت عدم اعتماد کے ذریعے نکالا گیا تو ہزاروں افراد بغیر کسی منظم کال کے سڑکوں پر آئے اور احتجاج کیا۔ ہزاروں کی تعداد میں پی ٹی آئی کارکنان کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ اور اسلام آباد میں قومی ترانہ پڑھتے ہوئے پرامن احتجاج کرتے رہے۔ یہ جذباتی مناظر پورے سوشل میڈیا پر گردش کرتے رہے۔ ہزاروں کی تعداد میں شہریوں نے حکومت کی مخالفت کرتے ہوئے عمران خان اور پی ٹی آئی کا ساتھ دیا اور احتجاج کیا۔ احتجاج کے دوران کسی املاک یا شخص کو نقصان نہیں پہنچایا گیا۔‘

پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے کہا کہ عمران خان جلد اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے (فائل فوٹو: اے پی پی)

’تحریک انصاف نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ 25 مئی 2022 کو تحریک انصاف نے مختلف شہروں میں پرامن احتجاج کرتے ہوئے اسلام آبادکی طرف مارچ کیا۔ مارچ کا مقصد حقیقی آزادی تھا۔ اسلام آباد مارچ کا مقصد حکومت کی توجہ دلانا تھا کہ عوام حکومت کے لیے کیا جذبات رکھتے ہیں۔ اس دوران وزارت داخلہ اور پنجاب حکومت کی ہدایت پر پرامن احتجاج کرنے والے کارکنوں کو گھروں سے گرفتار کیا گیا اور لاٹھی چارج کیا گیا۔ تحریک انصاف کے پانچ کارکنان کی ہلاکت ہوئی۔‘
’حکومت نے نہ صرف کارکنان کو گرفتار کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ مرکزی قائدین کے ساتھ بھی یہی رویہ اپنایا گیا۔ موٹروے سمیت اسلام آباد کی طرف آنے والی تمام مرکزی شاہراہوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کیا گیا۔ بغیر کسی پیشگی نوٹس کے پنجاب سمیت پورے ملک میں سیاسی کارکنوں اور قائدین کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔‘

’عمران خان نے کشیدگی سے بچنے کے لیے احتجاج ختم کیا‘

درخواست میں کہا گیا ہے کہ جب یہ محسوس کیا گیا کہ عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کےدرمیان تصادم ہو سکتا ہے تو عمران خان نے یہ فیصلہ کیا کہ مزید کسی کشیدگی سے بچنے کے لیے احتجاج ختم کیا جائے۔ یہ عوام کی خواہش ہے کہ ملک میں فوری نئے انتخابات کروائے جائیں۔ حکومت نے غیرقانونی طریقے سے ریاستی مشینری کا استعمال کرتے ہوئے صحافیوں پر بھی غیر قانونی مقدمات درج کروائے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائش گاہ پر بھی چھاپہ مارا گیا۔ حکومت نے ان آزاد سوچ رکھنے والے صحافیوں پر بھی مقدمات درج کروائے کو عوامی جذبات کو الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا پر اجاگر کر رہے تھے۔ ایسے اقدامات پر عدالت بھی تشویش کا اظہار کرکے اسے اظہار رائے آزادی کے منافی قرار دے چکی ہے۔ 
’تحریک انصاف کو یہ آئینی حق حاصل ہے کہ وہ پر امن طریقے سے دوںارہ اسلام آباد کی طرف مارچ کرے۔ تحریک انصاف یہ اعلان کرتی ہے کہ وہ دوبارہ پورے ملک سے احتجاج کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچے گی۔ ہمیں آئین نے یہ حق دیا ہے۔ دوسری جانب وزیر داخلہ بھی عوامی سطح پر اعلان کر چکے ہیں کہ تحریک انصاف کو کسی صورت بھی احتجاج نہیں کرنے دیا جائے گا۔ اسی نوعیت کے بیانات وفاق اور پنجاب حکومت کے حکام متعدد بار دے چکے ہیں۔ یہ بیانات دینے کا مقصد عوامی سطح پر خوف و ہراس قائم کرنا ہے۔ اگر حکومت خوف و ہراس قائم کرنے میں کامیاب ہوئی تو یہ عوامی اعتماد، آئین اور  جمہوریت کے خلاف ہوگا۔ُ 
درخواست میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں حکومت نے چند پی ٹی آئی کارکنان کو رہا کیا۔ عدالت کی واضح ہدایت تھی کہ کسی سیاسی کارکن کو گرفتار نہ کیا جائے۔ سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی یہ یقین دہانی کروا چکی تھی کہ ہمارا احتجاج پر امن ہوگا اور املاک کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔

پی ٹی آئی نے اپنی درخواست میں کہا کہ پرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ وفاق اور پنجاب حکومت کو ہدایات جاری کی جائیں کہ پرامن احتجاج کرنے والے کسی سیاسی ورکر اور لیڈر کو گرفتار نہ کیا جائے۔ کسی بھی شہر میں آزانہ نقل و حرکت کو قائم رکھنےکے لیے کسی بھی قسم کی رکاوٹ نہ کھڑی کی جائے۔ کسی بھی فورس کا استعمال کرکے یا تشدد کے ذریعے پر امن احتجاج کو نہ روکا جائے۔ 
واضح رہے کہ تحریک انصاف نے اس کیس میں بابر اعوان کی جگہ علی ظفر کی خدمات حاصل کی ہیں اور یہ درخواست بھی انہی کے ذریعے دائر کی گئی ہے۔
 درخواست میں وفاقی حکومت، پنجاب حکومت، اسلام آباد انتظامیہ، آئی جی اسلام آباد، آئی جی پنجاب، حکومت سندھ ، آئی جی سندھ، کے پی حکومت، آئی جی کے پی، بلوچستان حکومت اور آئی جی بلوچستان کو فریق بنایا گیا ہے۔

شیئر: