امریکی جنگ آزادی میں شریک 18 سعودی نوجوانوں کا قصہ
ایک زمانے میں اونٹوں کے ذریعے عرب دنیا میں نجدی کاروبار کیا کرتے تھے(فوٹو، سبق)
سعودی مصنف اور سیاسی تجزیہ نگار محمد الساعد نے امریکی صدر جو بائیڈن کے دورہ مملکت کے موقعے پر 19ویں صدی عیسوی کے ابتدائی عہد میں متحدہ ریاست کے قیام کے لیے ہونے والی جنگ میں شریک 18 سعودی نوجوانوں کی کہانی کا ذکر کیا ہے۔
محمد الساعد نے اس کی تفصیلات معروف سعودی سکالر ابراہیم المسلم کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ 18 سعودی نوجوانوں کا قصہ دونوں ملکوں اور ان کے عوام کے درمیان گہرے اور دیرینہ تعلقات اور ایک دوسرے کی اہم تاریخی کاوشوں میں فریقین کی حصہ داری کا پتہ دیتا ہے۔
الساعد کا ایک مضمون سعودی جریدے عکاظ میں شائع ہوا ہے۔ جس میں وہ تحریر کرتے ہیں کہ ’ایسا لگتا ہے کہ سعودی اور امریکی عوام کے تعلقات اس سے کہیں زیادہ گہرے اور پرانے ہیں جتنا کہ بہت سارے سکالر اور محققین سمجھ رہے ہیں۔‘
الساعد نے اس حوالے سے جو معلومات پیش کی ہیں وہ العقیلات النجدیین کے بعض مورخین خصوصاً ابراہیم المسلم کے تاریخی بیان سے نقل کیے ہیں۔
ایک زمانے میں اونٹوں کے ذریعے عرب دنیا میں نجدی کاروبار کیا کرتے تھے۔ یہ لوگ نجد عراق اور شام سامان تجارت لاتے اور لے جاتے تھے جو العقیلات کے نام سے معروف تھے۔
یہ لوگ جزیرہ عرب اور پڑوسی ممالک کے ساتھ عسکری اور اقتصادی مقاصد کے لیے اونٹ استعمال کیا کرتے تھے۔ ان کی تاریخ ابراہیم المسلم نے ترتیب دی ہے۔
الساعدی بتاتے ہیں کہ امریکہ کو متحد کرنے کے لیے 1861 سے 1865 کے درمیان جنگ لڑی گئی تھی۔
یہ وہ دور ہے جب دوسری سعودی ریاست نے اثر و نفوذ قائم کرنے کی مہم چلائی ہوئی تھی۔ امام فیصل بن ترکی بن عبداللہ آل سعود کے عہد میں جزیرہ عرب کے بڑے علاقے اور نجد کے وسطی علاقے میں خاندانی اقتدار کی بحالی کی جنگ چل رہی تھی۔
ابراہم لنکن اور ان کی فوج علیحدگی پسند ریاستوں پر فتح یابی کے لیے لڑ رہے تھے۔ اس زمانے میں انڈین اونٹوں سے اسلحہ کی منتقلی کا کام لیا جا رہا تھا۔ انڈین اونٹ اس مقصد میں غیر موثر ثابت ہورہے تھے۔
متعدد محاذوں پر جنگ اور ایک ریاست سے دوسری ریاست کے درمیان جغرافیائی فاصلے کی وجہ سے فتح نہیں مل رہی تھی۔
انڈین اونٹ کمزور بھی تھے۔ خوفناک جنگ میں ان کے ذریعے اسلحہ اور کھانے پینے کے سامان کی منتقلی ان کے بس سے باہر تھی۔
اس مشکل کو حل کرنے کے لیے امریکی فوج نے آسٹریلیا وفد بھیجا جہاں اونٹوں کی افزائش ہو رہی تھی۔ بغداد بھی وفد بھیجا گیا جسے پوری دنیا میں اونٹوں کی اہم منڈی کی حیثیت حاصل تھی۔
امریکی وفد بغداد پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ نجدی اونٹ زیادہ بہتر ہیں۔ امریکی فوجیوں نے تقریبا 800 سعودی اونٹ خریدے۔
انہوں نے اس موقع پر 18 سعودی نوجوانوں کی خدمات حاصل کیں تاکہ وہ امریکہ کو متحد کرنے والی جنگ میں سعودی اونٹوں سے پیشہ ورانہ انداز میں کام لے سکیں۔
سعودی نوجوانوں نے امریکہ کی اس تاریخی جنگ میں حصہ لیا۔ ان میں سے تین سعودی نوجوان ہلاک ہوئے تھے اور 15 زندہ بچ گئے تھے۔ ان میں سے بیشتر کے ناموں سے یادگاری کتبے بھی بنائے گئے۔ ان میں سے ایک (قبر حدشی علی) کے نام سے اب تک موجود ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ نام کا ترجمہ صحیح طریقے سے نہیں کیا جا سکا تھا۔
امریکی ریاست ایریزونا میں اس کا تذکرہ مندرجہ ذیل عبارت Tomb of Hadschi Ali Camel Corps in Arizona کی صورت میں ملتا ہے۔
الساعد نے مذکورہ تاریخی واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ سعودی امریکی تعلقات کو سمجھنے اور قدیم رشتوں کے حقائق دریافت کرنے کے لیے ہمیں مزید تحقیق درکار ہے اس سے یہ حقیقت نمایاں ہوگی کہ دونوں ملکوں کا تعلق پیٹرول کے کنویں تلاش کرنے اور اسلحہ سازی تک محدود نہیں۔‘