الیکشن کمیشن نے منگل کو اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ممنوعہ غیرملکی ذرائع سے فنڈنگ ہوئی ہے اور اس نے اپنے اکاونٹس چھپائے، جبکہ عمران خان نے اپنا غلط تصدیقی سرٹیفیکیٹ جمع کروایا تھا۔
پی ٹی آئی کے سابق رہنما اکبر ایس بابر کی درخواست پر آٹھ سال بعد سنائے جانے والے فیصلے میں الیکشن کمیشن نے قرار دیا ہے کہ ’دستاویزات سے ثابت ہوا ہے کہ پی ٹی آئی اکاؤنٹس کا معاملہ پولیٹکل پارٹیز آرڈیننس 2002 کے آرٹیکل چھ (تین) کے زمرے میں آتا ہے، جو کہ ممنوعہ فارن فنڈنگ سے متعلق ہے اس لیے کمیشن پارٹی کو شوکاز نوٹس جاری کر رہا ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
الیکشن کمیشن پر ہمارا اعتماد نہیں: عمران خانNode ID: 686036
-
پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کا فیصلہ کچھ دیر میں، قانون کیا کہتا ہے؟Node ID: 689581
آرٹیکل چھ (تین) کا جائزہ لیا جائے تو اس کے مطابق کسی بھی غیرملکی حکومت، ملٹی نیشنل کمپنی یا مقامی طور پر قائم سرکاری یا نجی کمپنی، فرم، یا تجارتی ادارے اور پیشہ ورانہ ایسوسی ایشن کی طرف سے فنڈز یا چندہ لینا سیاسی جماعتوں کے لیے ممنوع ہے۔ سیاسی جماعتیں صرف انفرادی چندہ لے سکتی ہیں۔
’فیصلہ عمران خان اور پارٹی کے لیے باعث شرمندگی ہے‘
اردو نیوز نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے پی ٹی آئی کے مستقبل پر پڑنے والے قانونی اثرات کے حوالے سے قانونی ماہرین سے گفتگو کی ہے۔
ماہر قانون اور سپریم کورٹ بار کے سابق صدر حامد خان کے مطابق ’الیکشن کمیشن کا فیصلہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے لیے شرمندگی کا باعث بنے گا۔‘
![](/sites/default/files/pictures/August/42951/2022/53.jpg)
ان کا کہنا تھا کہ ’اس فیصلے کے بعد ممنوعہ فنڈز ضبط ہو سکتے ہیں، جرمانہ بھی ہو سکتا ہے مگر خطرناک فیصلہ تب ہوتا اگر پارٹی پر پابندی عائد کی جاتی جو کہ نہیں کی گئی ہے۔‘
عمران خان کے غلط حلف نامے پر ان کا کہنا تھا کہ مخالفین آرٹیکل 62 ایف ون کے تحت ان کی نااہلی کی کوشش کریں گے کہ وہ صادق اور امین نہیں رہے مگر اس طرح کے ڈیکلیریشن کو روٹین میں لیا جاتا ہے۔
’عمران خان معاشی امور کے ماہر نہیں ہیں انہیں جو دیا گیا انہوں نے آگے پہنچا دیا۔ اس میں کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے بلکہ پارٹی پر بات آتی ہے۔‘
پی ٹی آئی اور عمران خان کے خلاف اگلے اقدام کی راہ ہموار
پارلیمانی اور قانونی امور پر نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کے مطابق الیکشن کمیشن کا فیصلہ پی ٹی آئی کے لیے جتنا برا ممکن ہو سکتا تھا اتنا ہی برا آیا ہے۔
ٹوئٹر پر جاری اپنے تبصرے میں انہوں نے فیصلے کے تین اہم پہلوں پر روشنی ڈالی۔
ان کے مطابق ’پہلی بات تو یہ ہے کہ فیصلے سے تصدیق ہو گئی کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ رقم قبول کی۔ دوسری بات یہ ہے کہ فارن فنڈنگ بھی اس ممنوعہ رقم میں شامل تھی اور تیسری بات یہ ہے کہ پارٹی کے چئیرمین (عمران خان) کا اکاونٹس کی تفصیلات کے حوالے سے بیان حلفی جھوٹا ہے۔ اس سب سے اگلے اقدامات کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔‘
ECP judgment on Prohibited Funding Case seems to be as bad for PTI as it could be. 1)It confirms PTI accepted prohibited funding, 2)Foreign funding was included in prohibited funding, 3)Party Chair’s affidavit on Statement of Accounts is false. This sets the stage for next round.
— احمد بلال محبوبAhmedBilalMehboob (@ABMPildat) August 2, 2022
ثابت ہوا کہ فنڈنگ کا حساب موجود تھا
سابق وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر خالد رانجھا کے مطابق الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی کے تمام فنڈز کا ریکارڈ موجود تھا اس میں غلطیاں ہو سکتی ہیں مگر ریکارڈ موجود تھا، شاید یہی وجہ ہے کہ کمیشن نے پی ٹی آئی کو صرف نوٹس جاری کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’شوکاز نوٹس ایک شروعات ہے اور یہ کمیشن کی کوئی فائنڈنگ نہیں ہے بلکہ اصل فیصلہ کمیشن کی جانب سے شوکاز کے جواب کے بعد سامنے آئے گا۔‘
خالد رانجھا کے مطابق ’عمران خان نے کمیشن پر جتنے الزامات عائد کیے تھے، بہتر تھا کہ کمیشن اس پر فیصلہ ہی نہ سناتا۔‘
یاد رہے کہ اس کیس میں درخواست گزار اکبر ایس بابر کی جانب سے الیکشن کمیشن میں ایک رپورٹ جمع کروائی گئی تھی جس میں دعوٰی کیا گیا تھا کہ پی ٹی آئی نے سال 2009 سے 2013 کے دوران 12 ممالک سے 73 لاکھ امریکی ڈالر سے زائد فنڈز اکھٹے کیے جو کہ ممنوعہ فنڈنگ کے زمرے میں آتے ہیں۔
![](/sites/default/files/pictures/August/42951/2022/52_0.jpg)