Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزہ میں 29 افراد ہلاک، ’حملے ایک ہفتے تک جاری رہ سکتے ہیں‘

فلسطینی طبی عملہ فضائی حملے میں زخمی ہونے والی خاتون کو پستال منتقل کر رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
فلسطین کے شہر غزہ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران بچوں سمیت اب تک 29 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق حماس کے زیر انتظام علاقے میں محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ جمعے کو ’اسرائیلی جارحیت‘ کے آغاز سے اب تک ہلاک افراد میں چھ بچے بھی شامل ہیں۔
 حکام کے مطابق 253 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔
تاہم اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ’ناقابل تردید‘ شواہد موجود ہیں کہ عسکریت پسند تنظیم اسلامک جہاد کی جانب سے شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ پر داغہ گیا راکٹ متعدد بچوں کی ہلاکت کا ذمہ دار ہے۔
فوری طور پر یہ واضح نہیں ہوا کہ جبالیہ میں کتنے بچے ہلاک ہوئے ہیں۔ اے ایف پی کے ایک فوٹوگرافر نے ہسپتال میں چھ لاشیں دیکھی جن میں تین بچے بھی شامل تھے۔
اسرائیل کی فوج نے خبردار کیا ہے کہ ’اسلامک جہاد کے خلاف اس کی فضائی اور زمینی حملے ایک ہفتے تک جاری رہ سکتے ہیں۔‘
مصر کے صدر عبدل فتح السیسی نے کہا ہے کہ کشیدگی میں کمی کے لیے وہ فلسطینی اور اسرائیلی حکام سے مسلسل بات چیت کر رہے ہیں۔
اسرائیل نے کہا تھا کہ اس نے ممکنہ خطرے کے پیش نظر اسلامی جہاد کے خلاف آپریشن کیا جو اسرائیل پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔

 حکام کے مطابق 204 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’حالیہ کشیدگی خوف اور پریشانی واپس لے آئی ہے‘

غزہ کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ اگلے 24 گھنٹے ’اہم اور مشکل ترین‘ ہوں گے۔
وزارت نے خبردار کیا کہ بجلی کی کمی کے نتیجے میں 72 گھنٹوں کے اندر اہم سروسز معطل ہونے کا خدشہ ہے۔
غزہ کی رہائشی دنیا اسماعیل نے اے ایف پی کو بتایا کہ فلسطینی شہر اب رقم اور ادویات پر مشتمل ایک ضروری بیگ تیار رکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’حالیہ کشیدگی خوف، پریشانی اور اس احساس واپس کو لے آئی ہے کہ ہم تنہا ہیں۔‘
دوسری جانب اسرائیل کی میگن ڈیوڈ ایڈوم ایمرجنسی سروس نے کہا ہے کہ دو شدید زخمی افراد کو ہسپتال میں داخل کیا گیا ہے جبکہ دیگر 13 کو جان بچانے کے دوران معمولی چوٹیں آئیں۔
سنیچر کی شام کو عام شہریوں نے اسرائیل کی جانب حملوں سے بچنے کے لیے پناہ گاہوں کا رخ کیا۔
غزہ میں مصر کی سرحد کے ساتھ  رفاہ کے حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملے کے نتیجے میں خواتین اور بچے ملبے تلے پھنس گئے۔

اسرائیل کی فوج نے خبردار کیا ہے کہ حملے ایک ہفتے تک جاری رہ سکتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

امدادی کارکنوں نے اس عمارت کے ملبے کو ہٹایا ہے جہاں سے سنیچر کو اسرائیل نے مبینہ طور پر اسلامک جہاد کے کمانڈر خالد منصور کو نشانہ بنایا تھا۔
اسلامک جہاد کے کمانڈر خالد منصور کی ہلاکت کی حتمی تصدیق نہیں ہوئی تاہم اسرائیل کے فوجی آپریشنز ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ اودد بیسیوک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’غزہ میں اسلامک جہاد کے عسکری شاخ کی اعلٰی قیادت کو غیر فعال کر دیا ہے۔‘
اسرائیل کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اسلامک جہاد کی پوسٹوں سے راکٹ داغنے کی تیاری کرنے والےعسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ غزہ میں ہونے والے بم دھماکوں میں پانچ مکانات کو نشانہ بنایا گیا، جس سے غزہ شہر لرز اٹھا اور شہر بھر میں دھوئیں اور گرد کے بادل چھا گئے، کئی مکانات ملبے کا ڈھیر بن گئے۔

اسرائیل نے خان یونس میں بھی فضائی حملے کیے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

فلسطینی عسکریت پسندوں نے جوابی کارروائی کے دوران سرحد پار سے کم ازکم 160 راکٹ فائر کیے، جس کے بعد فضائی حملے کے سائرن بجائے گئے اور عوام کو تل ابیب اور بیت المقدس کے درمیان وسطی اسرائیلی شہر مودین کی محفوظ  پناہ گاہوں میں بھیج دیا گیا۔
اسلامک جہاد  کے ترجمان کی جانب سے کہا گیا کہ اسرائیل کے بن گورین ایئرپورٹ کو نشانہ بنایا گیا لیکن راکٹ تقریباً 20 کلومیٹر دور مودیین کے قریب گرا۔ 
اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد غزہ میں معمول کی زندگی متاثر ہے۔ بجلی تقسیم کرنے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے سرحدی گزرگاہوں کو بند کرنے کے بعد ایندھن کی کمی کی وجہ سے واحد پاور سٹیشن بند ہو چکا ہے۔

شیئر: