Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اوورسیز پاکستانیوں کے لیے پہلی ’امیگریشن پالیسی‘ کی منظوری تاخیر کا شکار

امیگریشن پالیسی میں مقاصد اور درپیش چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے حل بھی تجویز کیے گئے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی وزارت اوورسیز پاکستانیز نے ستمبر 2020 میں ملک کی پہلی امیگریشن اینڈ ویلفیئر پالیسی تیار کرکے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو منظوری کے لیے بھجوائی تھی۔ 
پالیسی کا مقصد پاکستان سے ورکرز کی منظم، محفوظ اور باقاعدہ امیگریشن یقینی بنانا ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں بالخصوص ورکرز اور پاکستان میں ان کے خاندانوں کی فلاح و بہبود کے لیے بہتر خدمات کی فراہمی اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ملک کی ترقی میں شامل کرنے اور واپس آنے والے پاکستانیوں کو معاشی و سماجی ترقی میں شامل کرنے کا معاون نظام تشکیل دینا ہے۔
مارچ 2022 میں بطور انچارج وزیر عمران خان نے ابتدائی مسودے کی منظوری دے کر کابینہ میں پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔ وزارت اوورسیز پاکستانی نے مسودہ کابینہ ڈویژن کو بھجوایا لیکن حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی پالیسی کی منظوری کا عمل روک دیا گیا۔ 
وزارت اوورسیز پاکستانیز کے حکام نے بتایا ہے کہ موجودہ حکومت نے اس پالیسی میں کچھ تبدیلیاں کرنے اور اسے مزید بہتر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب وہ تبدیلیاں کی جا رہی ہیں جبکہ اس سلسلے میں دیگر سٹیک ہولڈرز سے مشاورت بھی جا رہی ہے۔ 
اس پالیسی پر نظرثانی کا فیصلہ اس وجہ سے بھی کیا گیا ہے کہ اس پالیسی کی تشکیل کے لیے  پہلا مسودہ 2008 میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی دور حکومت میں تیار کیا گیا تھا۔ وہ مسودہ تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنی تجاویز شامل کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ مسلم لیگ ن کے دور میں بھی اس مسودے پر کام ہوتا رہا تاہم اسے حتمی شکل نہ دی جا سکی۔ 
تحریک انصاف کی حکومت نے 2018 میں سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا سلسلہ شروع کیا اور بالاآخر پالیسی تیار کر لی گئی لیکن حتمی منظوری نہ لے سکی۔ 
اس حوالے سے وفاقی وزیر برائے اوورسیز پاکستانیز ساجد حسین طوری نے اردو نیوز کو بتایا کہ سابق حکومت کا سارا زور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے پر مرکوز تھا لیکن وہ اس کے لیے بھی کوئی میکانزم تیار نہ کر سکے۔ ہماری جماعت نے سب سے پہلے اس بات کی ضرورت محسوس کی تھی وہ پاکستانی جو نہ صرف اربوں ڈالر ترسیلات زر پاکستان بھیجتے ہیں بلکہ پاکستان کے حقیقی سفیر بھی ہیں۔ 

مارچ 2022 میں بطور انچارج وزیر عمران خان نے ابتدائی مسودے کی منظوری دے کر کابینہ میں پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انھوں نے کہا کہ ’ہماری وزارت کا کام صرف بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی فلاح و بہبود نہیں بلکہ پاکستان میں موجود افراد کو بیرون ملک باعزت روزگار کے مواقع فراہم کرنا بھی ہے اور اسی طرح بیرون ملک سے واپس آنے والے افراد کے ساتھ رابطہ استوار رکھتے ہوئے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے بھی اقدامات کرنا ہے۔‘
وفاقی وزیر کے مطابق ’گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان میں جتنے افراد مارکیٹ میں بسلسلہ روزگار شامل ہوئے اس کا نصف بیرون ملک بالخصوص مڈل ایسٹ گئے۔ کورونا کی وجہ سے اس رجحان میں کمی ضرور آئی لیکن ہم پر امید ہیں کہ اب مارکیٹ میں بہت سے نئے مواقع دستیاب ہوں گے اور ہم نئی پالیسی کے ذریعے ان مواقع کو مزید مفید بنانے کے لیے اقدامات کرنا چاہتے ہیں۔‘
اردو نیوز کو دستیاب سابق حکومت کی پالیسی کے مسودے میں پالیسی بنانے کی وجوہات، مقاصد اور چیلنجز شامل ہیں۔ پالیسی کے تحت امیگریشن قوانین میں تبدیلی سمیت اداروں میں بہتری کے اقدامات بھی تجویز کیے گئے ہیں۔
پالیسی میں بیرون ملک مقیم پاکستانی ورکرز کو درپیش اہم چیلنجز کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ جس کے تحت پاکستانی ورکرز کی مشرق وسطیٰ میں ملازمتوں کے مواقع کی فراہمی کے تسلسل کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک میں نئے مواقع کی تلاش جاری رکھنا ہے۔ بیرون ملک ورکرز کے حوالے سے دو طرفہ یاداشتوں پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث دو طرفہ معاہدوں کے امکانات محدود ہو جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ ریکروٹمنٹ کے عمل میں ہونے والی زیادتیاں اور ورکرز کے حقوق کے راستے میں آجروں کے حوالے سے میزبان ملکوں کے ساتھ بات چیت بھی ایک مسئلہ ہے۔ بیرون ملک ورکرز کے ساتھ ملازمت کے معاہدے سے انحراف، تنخواہوں میں کمی اور کام میں تبدیلی جیسے مسائل بھی سامنے ہیں۔
پاکستانی ورکرز کے بچوں کو سکولوں میں داخلے، پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کی تجدید میں درپیش مشکلات اور سفارتی خدمات کی غیر مناسب فراہمی کو بھی سامنے رکھا گیا ہے۔

پالیسی میں بیرون ملک مقیم پاکستانی ورکرز کو درپیش اہم چیلنجز کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔(فوٹو: اے ایف پی)

اس کے علاوہ پاکستانی ورکرز کو حوالہ ہنڈی سے بچانے کے لیے کسی قسم کا علم نہ ہونے کی وجہ سے وہ مسائل جنم لیتے ہیں اور ترسیلات زر بھی متاثر ہوتے ہیں۔
بیرون ملک سے واپس آنے والے پاکستانیوں کی تعداد یا ان کے بارے میں ڈیٹا کی دستیابی نہ ہونے کے باعث بوقت ضرورت ان کی معاونت کرنے اور ان کی ضروریات کا اندازہ لگانے میں بھی مشکلات ہوتی ہیں۔ ان تمام چیلنجز کے باعث پاکستانی ورکرز عموماً نہ صرف بیرون ملک بلکہ وطن واپس آنے کے بعد بھی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔
پالیسی میں مقاصد اور درپیش چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے حل بھی تجویز کیے گئے ہیں۔ جس کے مطابق 1979 کے امیگریشن آرڈینینس اور دیگر متعلقہ قوانین میں ترامیم کے ذریعے ورکرز کی ٹریننگ، ایمپلائمنٹ پروموٹرز کی استعداد کار میں اضافہ اور کمیونٹی ویلفئیر اتاشیوں کے کردار میں بہتری تجویز کی گئی ہے۔
پالیسی میں انسانی سمگلنگ روکنے، بہترین ریکروٹمنٹ کے لیے مراعات، ورکرز کو بیرون ملک بھجوانے کے اخراجات میں کمی اور ورکرز کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کی تجاویز بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ بیرون ملک ورکرز کی مانگ کو سامنے رکھتے ہوئے پیشہ وارانہ مہارت کو فروغ دینے، بیرون ملک ورکرز کے تحفظ اور سستی، محفوظ اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو بروئے کار لاتے ہوئے ترسیلات زر بھجوانے کا نظام متعارف کرانے کی تجویز دی گئی ہے۔
مقاصد کے حصول، چیلنجز کے حل اور مسائل کے حل کے لیے متعلقہ اداروں کو قلیل مدتی، وسط مدتی اور طویل مدتی اہداف کا تعین بھی کیا گیا ہے۔ ان اہداف میں قانون سازی، جدید میکانزم، تربیت، معاہدے اور اصلاحات شام ہیں۔ 

شیئر: