مقتدیٰ الصدر کا سیاست چھوڑنے کے اعلان بعد حامیوں اور مخالفین میں جھڑپ، دو ہلاک
مقتدیٰ الصدر کے حلیف مصطفیٰ الخدیمی اس وقت ملک کے نگران وزیراعظم کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
عراق کے بااثر شیعہ عالم دین مقتدیٰ الصدر کے سیاست چھوڑنے کے اعلان کے بعد ان کے حامیوں نے بغداد کے قلعہ بند گرین زون میں واقع کمرشل عمارت ریپبلیکن پیلس پر دھاوا بول دیا ہے۔
الصدر کے اعلان کے بعد ان کے حامیوں اور ایران کے حمایت یافتہ گروپوں کے درمیان جھڑپو میں دو افرد ہلاک ہوگئے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک سیکیورٹی ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ مشتعل مظاہرین مقتدیٰ الصدر کے سیاست چھوڑنے کے اعلان کے چند لمحوں کے بعد ریپبلیکن پیلس میں گھس گئے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ایک فوٹو گرافر کے مطابق الصدر کے ہزاروں حامی بغداد کے گرین زون کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
الصدر کے نوجوان حامی اور ایران کے حمایت یافتہ گروپوں کے ممبران کے درمیان گرین زون کے باہر جھڑپیں ہورہی ہے اور دونوں طرف سے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا جارہا ہے۔
بغداد کا مرکزی علاقہ گولیوں کی آواز سے گونج اٹھا۔ پولیس اور طبی عملے کے مطابق دو ہلاکتوں کے علاوہ 19 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
قبل ازیں آرمی نے مقامی وقت کے مطابق سہ پہر تین بجے سے بغداد میں کرفیو لگانے کا اعلان کیا تھا۔
آرمی کے مشترکہ آپریشن کمانڈ کے اعلامیے کے مطابق کرفیوں کے دوران گاڑیوں اور شہریوں کی موومنٹ پر پابندی ہوگی۔
مقتدیٰ الصدر نے سیاست سے حتمی دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مقتدیٰ الصدر کا تازہ ترین فیصلہ ملک میں مزید عدم استحکام پیدا کرسکتا ہے۔
مقتدیٰ الصدر نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ‘میں سیاست سے اپنی حتمی دستبرداری کا اعلان کرتا ہوں۔‘ صدر نے اپنے ساتھی شیعہ لیڈران پر اصلاحات کی کال پر کان نہ دھرنے پر تنقید کی۔
مقدیٰ الصدر نے اپنی تنظیم کے دفاتر بند کرنے کے اعلان کی وضاحت نہیں کی تاہم انہوں نے کہا کہ ان کی تنظیم کے ثقافتی اور مذہبی ادارے کھلے رہیں گے۔
مقتدیٰ الصدر نے ماضی میں بھی سیاست اور حکومت سے علیحدگی اور اپنے وفادار ملیشیا کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم ابھی تک ان کا ملک کے ریاستی اداروں پر اثر رسوخ قائم ہے اور ان کا ہزاروں ممبران پر مشتمل مسلح گروپ بھی ہے۔
ماضی میں اس طرح کے اعلانات کے باجود وہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ تاہم عراق میں حالیہ سیاسی بحران ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ شدید ہے۔
مقتدیٰ الصدر اور ان کے شیعہ حریفوں کے درمیان حالیہ ڈیڈلاک کی وجہ سے ملک لمبے عرصے سے بغیر حکومت کے چل رہا ہے۔
اکتوبر کے الیکشن میں مقتدیٰ الصدر کی پارٹی صدرسٹ مومنٹ پہلے نمبر پر آئی تھی لیکن اپنی مرضی کی حکومت بنانے میں ناکامی کے بعد ان کی پارٹی کے ممبران حکومت سازی سے دستبردار ہوگئے تھے۔
اس سے قبل انہوں نے ایران کے قریبی اپنے شیعہ حریف گروپوں کو حکومت سے باہر رکھنے کی دھمکی دی تھی۔
اس کے بعد مقتدیٰ الصدر کے حامیوں نے بغداد کے مرکز میں واقع حکومتی زون پر دھاوا بول دیا تھا۔ تب سے صدر کے حامی پارلیمنٹ پر قابض ہے جس کی وجہ سے صدر اور وزیراعظم کے انتخاب کا عمل تعطل کا شکار ہے۔
اب مقتدیٰ الصدر کا مطالبہ ہے کہ پارلیمنٹ کو تحلیل کرکے قبل از وقت انتخابات کرائے جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے عراق پر قبضے کے بعد حکومت میں رہنے والا کوئی بھی سیاست دان عوامی عہدہ نہیں سنبھال سکتا۔
مقتدیٰ الصدر کے حلیف مصطفیٰ الخدیمی اس وقت ملک کے نگران وزیراعظم کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
پیر کے اعلامیے نے ان خدشات میں اضافہ کیا ہے کہ الصدر کے حامی ان کے کنٹرول کے بغیر اپنے جاری احتجاج میں شدت لائیں گے جس سے عراق مزید عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا۔