Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پاکستان انٹرنیٹ اور موبائل فون لوڈشیڈنگ کی طرف بڑھ رہا ہے؟

موبائل کمپنیوں نے کہا ہے کہ ’حکومت لائسنس فیس اور موبائل سپیکٹرم کے لیے ڈالر سے منسلک ادائیگیوں کے معاملے کو بہتر کرے‘ (فائل فوٹو: وکی میڈیا)
پاکستان کے شہری بجلی اور گیس کی لوڈشیدنگ کا تو برسوں سے سامنا کر رہے ہیں لیکن اب ان کا ڈیجیٹل یعنی انٹرنیٹ اور موبائل فون کی لوڈشیڈنگ سے بھی پالا پڑ سکتا ہے جس سے وہ باہم رابطے کی سہولت سے محروم ہو سکتے ہیں۔
اس کی وجہ بھی وہی ہے جو بجلی کی لوڈشیڈنگ کی ہوتی ہے کیونکہ انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ مواصلاتی آلات چلانے کے لیے ایندھن کے اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے اور اگر حکومت نے انہیں درپیش متعدد مسائل حل نہ کیے تو انہیں اپنی سہولیات منقطع کرنا پڑیں گی۔
اس بارے میں اردو نیوز کو معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں موبائل سروسز فراہم کرنے والی کمپنیوں نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ لائسنس فیس اور موبائل سپیکٹرم کے لیے ڈالر سے منسلک ادائیگیوں کے معاملے میں بہتری لائے بصورت دیگر معاملات سروسز کے تعطل کی طرف چلے جائیں گے۔
ٹیلی کام خدمات فراہم کرنے والے اداروں کے مطابق رواں برس کے دوران بجلی وایندھن کی قیمت، شرح سود میں اضافے اور روپے کی قدر گرنے کی وجہ سے ان  کی خدمات کی  قیمت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
ایک موبائل فون کمپنی کے اعلیٰ عہدیدار نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’اپنی خدمات کی قیمت روپے میں وصول کر کے ڈالر میں لائسنس فیس اور دیگر اخراجات ادا کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے، اور اس کے اثرات ان کی مجموعی کارکردگی پر پڑ رہے ہیں۔‘
ٹیلی کام کمپنی جاز کے چیف ایگزیکٹیو افسر عامر ابراہیم کے مطابق موبائل آپریٹرز کو ایندھن، بجلی، شرح سود، لائسنس فیس اور دیگر اخراجات کیادائیگی امریکی کرنسی یعنی ڈالر میں کرنے کی وجہ سے ڈیجیٹل ایمرجنسی کی صورت حال درپیش ہے۔
عامر ابراہیم کے مطابق ’حالیہ عرصے میں تیل کی قیمتیں 80 فیصد، بجلی کی قیمت 50 فیصد، شرح سود ساڑھے پانچ فیصد بڑھی ہے۔‘
’ہمارے ٹاورز جن سے صارفین کو انٹرنیٹ مہیا کیا جاتا ہے، ان کے لیے بجلی، بیٹری اور ایندھن کے اخراجات اب ہمارے لیے بہت مہنگے ہو چکے ہیں۔‘

صارفین کو بجلی اور گیس کے بعد انٹرنیٹ اور موبائل فون کی لوڈشیڈنگ سے بھی پالا پڑ سکتا ہے (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)

عامر ابراہیم نے مزید کہا کہ ’ہم صارفین سے روپے میں قیمت وصول کرتے ہیں جب کہ سپیکٹرم کی ادائیگی ڈالر سے منسلک ہے۔‘
’ہماری تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ ڈالر کی صورت میں آمدن آخری چار سہ ماہیوں میں مسلسل کم ہوئی ہے۔ رواں برس کی دوسری سہ ماہی کی آمدن گذشتہ برسوں کی نسبت 12 فیصد کم ہوئی ہے۔‘
’حکومت سے بات چیت چل رہی ہے، توقع ہے کہ حکومت اسے سنجیدگی سے لے گی۔ اگر بہتری کے اقدامات نہ کیے جا سکے تو پاکستان ڈیجیٹل تاریک دور کی جانب چلا جائے گا۔‘

ڈیجیٹل ایمرجنسی کیا؟

پاکستان میں ٹیلی کام خدمات فراہم کرنے والے شعبے کے مطابق معاشی میدان میں ہونے والی تبدیلیوں کے باعث کاروباری لاگت اور آمدن ومنافعے کا تناسب بگڑ چکا ہے۔
آمدن وخرچ کا یہ بگڑا ہوا تناسب ٹیلی کام آپریٹرز کی صورت حال کو ایک ایسی سطح پر لے آیا ہے جہاں انہیں ہنگامی کیفیت کا سامنا ہے۔

موبائل سپیکٹرم کیا ہے؟

بالکل عام زبان میں ٹیلی کام ٹریفک کی گنجائش کو موبائل سپیکٹرم کہا جاتا ہے۔ حکومت کی جانب سے سپیکٹرم کی نیلامی کی جاتی ہے جس میں مختلف ادارے بولی دے کر سپیکٹرم حاصل کرتے ہیں۔

موبائل کمپنیوں کے مطابق ’اپنی خدمات کی قیمت روپے میں وصول کر کے ڈالر میں لائسنس فیس اور دیگر اخراجات ادا کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ٹیلی نار پاکستان کے سی ای او عرفان وہاب نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ ’پاکستان کا موجودہ سپیکٹرم مقدار کے لحاظ سے افغانستان سے بھی نصف ہے۔ نتیجتاً صارفین کو طلب کے باوجود وہ رفتار نہیں مل پاتی جو دیگر ممالک میں میسر ہے۔‘
ٹیلی کام شعبے کے ماہرین کے مطابق سپیکٹرم کو ایک سڑک سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے۔ جتنی کشادہ سڑک ہوگی اتنی ہی رفتار سے ٹریفک چلے گی۔‘
پاکستان کو عام طور پر سست رفتار انٹرنیٹ رکھنے والے ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ جتنا سپیکٹرم ہمیں دینا چاہیے تھا اتنا نہیں دیا گیا۔
سپیکٹرم کی نیلامی ہوتی ہے اگر وہ کامیاب نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس قیمت پر اسے بیچا جا رہا ہے خریداروں کے لیے وہ موضوع نہیں ہے۔
سپیکٹرم بولی میں جو قیمت لگائی جاتی ہے وہ ڈالر اور روپے کی قدر میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے ادا کرنا مشکل ہوتی ہے۔
بولی کے دوران سپیکٹرم کی قیمت ڈالر کی قدر کے مطابق طے ہوتی ہے لیکن ادائیگی کے طریقہ کار کے تحت آئندہ برسوں میں وہ بدل کر کہیں زیادہ ہوچکی ہوتی ہے۔

مستقبل میں موبائل فون پر انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کو رفتار کم ہونے یا سروس بالکل نہ ہونے جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بولی کے دوران سپیکٹرم کی قیمت ڈالر کی قدر کے مطابق طے ہوتی ہے لیکن ادائیگی کے طریقہ کار کے تحت آئندہ برسوں میں وہ بدل کر کہیں زیادہ ہوچکی ہوتی ہے۔
جاز کے سی ای او عامر ابراہیم کے مطابق ’ستمبر 2021 میں سپیکٹرم آکشن ہوا تو چار میں سے تین موبائل آپریٹرز اس میں شریک ہی نہیں ہوئے، اس وقت ڈالر 165 روپے کا تھا اب 200 سے زائد کا ہو چکا ہے۔‘
گذشتہ آکشن میں سپیکٹرم کی بولی صرف یوفون نے دی تھی جس کے خاصے شیئرز حکومت کے پاس ہیں۔
عامر ابراہیم نے کہا کہ ’حکومت سے گزارش ہے کہ سپیکٹرم سستی قیمت میں مہیا کرے، پاکستانی روپوں میں کرے اور ادائیگی 10 سے 15 برس کے لیے کرے تاکہ آپریٹرز کو سہولت ہو اور نتیجتاً ملک بھی آگے بڑھے۔‘
پاکستان میں عموماً سپیکٹرم بولی کے وقت آپریٹرز 50 فیصد قیمت اسی وقت ادا کرتے ہیں جب کہ باقی 10 فیصد سالانہ کے تناسب سے آئندہ پانچ برس میں ڈالر سے منسلک روپوں میں ادا کرنا ہوتی ہے۔
ٹیلی کام ماہرین کے مطابق دنیا کے بڑے حصے میں ٹیلی کام لائسنس کی تجدید کی قیمت مقامی کرنسی میں ادا کی جاتی ہے تاکہ اگر آمدن مقامی کرنسی میں ہورہی ہے تو اخراجات بھی اسی میں ہوں لیکن پاکستان میں یہ رقم ڈالر سے منسلک کی جاتی ہے۔
ماہرینِ ٹیلی کام کے مطابق دنیا کے بڑے حصے میں ٹیلی کام لائسنس کی تجدید کی قیمت مقامی کرنسی میں ادا کی جاتی ہے تاکہ اگر آمدن مقامی کرنسی میں ہورہی ہے تو اخراجات بھی اسی میں ہوں لیکن پاکستان میں یہ رقم ڈالر سے منسلک کی جاتی ہے۔

پاکستان میں ٹیلی کام خدمات متاثر ہونے سے بینکنگ کا شعبہ زیادہ متاثر ہوسکتا ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)

ٹیلی کام ماہرین کے مطابق دنیا کے بڑے حصے میں ٹیلی کام لائسنس کی تجدید کی قیمت مقامی کرنسی میں ادا کی جاتی ہے تاکہ اگر آمدن مقامی کرنسی میں ہورہی ہے تو اخراجات بھی اسی میں ہوں لیکن پاکستان میں یہ رقم ڈالر سے منسلک کی جاتی ہے۔
پاکستان میں دیگر شعبوں ایوی ایشن، بینکنگ، پاور وغیرہ میں لائسنس کی تجدید کی فیس روپے میں ہی کی جاتی ہے البتہ ٹیلی کام سے یہ رقم ڈالر سے منسلک ہے۔

ڈیجیٹل ایمرجنسی ختم نہ ہونے سے صارف کو کیا نقصان ہوگا؟

ٹیلی کام ماہرین کے مطابق ڈیجیٹل ایمرجنسی برقرار رہنے کی صورت میں بجلی یا گیس کی لوڈشیڈنگ جیسی کیفیت پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ 
ڈیجیٹل ایمرجنسی برقرار رہتی ہے تو پاکستان کے موبائل فون صارفین کو مختلف اوقات میں ٹیلی کام خدمات مکمل یا جزوی طور پر بند ملیں گی۔
موبائل فون پر انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کو رفتار کم ہونے یا سروس بالکل نہ ہونے جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تقریباً 98 فیصد تعداد موبائل فونز پر انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پی ٹی اے ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں ٹیلی کام آپریٹرز کی فی صارف اوسط آمدن 215 روپے ماہانہ ہے، جو ایک ڈالر سے بھی کم ہے۔
ٹیلی کام سیکٹر کے عالمی ڈیٹا کے مطابق بہتر انٹرنیٹ خدمات فراہم کرنے والے ملکوں میں ایوریج یوزر آمدن 30 ڈالر تک ہے۔
اس فرق کی وجہ سے جب صارف بہتر رفتار میں انٹرنیٹ چاہتا ہے تو ٹیلی کام آپریٹر کے لیے ڈیجیٹل ایمرجنسی کے باعث یہ طلب پوری کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔
گلوبل ایسوسی ایشن آف موبائل آپریٹرز کے مطابق 269 ملکوں میں فی صارف آمدن کی اوسط کے اعتبار سے پاکستان سب سے آخری ملکوں میں شامل ہے۔
اس ڈیٹا سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں ٹیلی کام سیکٹر کے پاس آمدن اور اخراجات کا توازن برقرار رکھنا اور غیرملکی سرمایہ کار کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے راضی کرنا دشوار ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے مطابق اس وقت ملک میں موبائل فون سبسکرائبرز کی تعداد 19 کروڑ 50 لاکھ ہے جب کہ اس میں سے 11 کروڑ 90 لاکھ صارفین موبائل براڈبینڈ استعمال کرتے ہیں۔
ٹیلی کام سیکٹر کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تقریباً 98 فیصد تعداد موبائل فونز پر انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے۔

شیئر: