گذشتہ کئی روز سے اسحاق ڈار کی لندن سے واپسی اور وزارت خزانہ کا قلم دان سنبھالنے کی اطلاعات تھیں۔
جمعے کو مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے تصدیق کی کہ لندن میں مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی زیر صدارت پارٹی اجلاس میں سینیٹر اسحاق ڈار کو نیا وزیر خزانہ نامزد کر دیا گیا ہے۔
اسحاق ڈار، مفتاح اسماعیل کے مقابلے میں کیا فرق لا سکتے ہیں؟
سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نوے کی دہائی میں بھی پاکستان کے وزیر خزانہ رہ چکے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کے تیسرے دور حکومت میں بھی 2013 سے 2017 تک وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز رہے۔
وہ اپنے دونوں ادوار میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو کم کرنے اور کم رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ تاہم ان پر سابق وزیراعظم عمران خان اور دیگر کئی مخالفین کی تنقید کرتے رہے ہیں کہ وہ ایسا مصنوعی طور پر مارکیٹ میں ڈالر بیچ کر کرتے رہے ہیں۔
اسحاق ڈار سابق وزیراعظم نواز شریف کے سمدھی بھی ہیں جس وجہ سے مسلم لیگ ن میں ان کا خاصا اثرورسوخ بھی ہے بلکہ اسی وجہ سے پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی ان کے اچھے مراسم رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسحاق ڈار اتحادی حکومت کو ساتھ لے کر چلنے میں زیادہ معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے معاشی تجزیہ کار خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ ’ملک کی معاشی صورت حال اتنی مخدوش ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ وزیر خزانہ کی تبدیلی سے بہت زیادہ فرق پڑ سکتا ہے۔‘
’اس وقت چاہے اسد عمر کو وزیر بنائیں چاہے مفتاح کو یا اسحاق ڈار کو، پاکستان کے پاس زیادہ آپشنز نہیں ہیں۔’
ان کا کہنا تھا کہ ’اسحاق ڈار کے بارے میں مثبت باتیں یہ مشہور ہیں کہ وہ سخت گیر منتظم ہیں، اختیارات کو اپنے پاس رکھتے ہیں اور اپنے اہداف کے حصول میں بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ ان کے گذشتہ دور میں مشہور تھا کہ ان کے ایک بیان کے بعد ڈالر کی قیمت نیچے آجاتی تھی۔‘
تاہم خرم شہزاد کے مطابق ’اب حالات کافی بدل چکے ہیں۔ اب سٹیٹ بینک زیادہ خود مختار ہوگیا ہے جبکہ پاکستان کے پاس ڈالر کی شدید کمی ہے اور معاشی حالت بھی گذشتہ ادوار کے مقابلے میں خاصی کمزور ہے۔ اس لیے توقعات کو محدود رکھنا ہوگا۔‘
’ملک کو بہتر گورننس کی ضرورت ہے، دوست ممالک سے مزید مدد درکار ہے اور برآمدات بڑھانے کی شدت سے ضرورت ہے۔ اسحاق ڈار کے لیے یہ سب کام اتنے آسان نہیں ہوں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی معیشت کو بہتر کرنے کی اچھی کوشش کر رہے تھے مگر اس وقت ملکی معشیت مشکل حالات میں ہے۔‘
سینیئر صحافی اور معاشی تجزیہ کار مہتاب حیدر کا کہنا تھا کہ ’اس میں شک نہیں کہ اسحاق ڈار اچھے کرائسس مینیجر ہیں، تاہم وہ بھی یہ سمجھتے ہیں اس مرتبہ پاکستان کے معاشی مسائل ہمہ جہت ہیں جبکہ اسحاق ڈار کو شاید پہلے جیسے اختیارات بھی حاصل نہ ہوں کہ وہ سب کچھ بدل سکیں۔‘
مہتاب حیدر کے مطابق ’اس وقت ملک کو کم سے کم 30 ارب ڈالر کی ضرورت ہے تاکہ جاری خسارہ ختم ہو سکے جب سیلاب کے بعد اب مسائل مزید بڑھ گئے ہیں۔ اسحاق ڈار کو سب سے پہلے ان 30 ارب ڈالر کا بندوبست کرنا ہوگا اس کے بعد ہی ٖڈالر نیچے آئے گا اور مہنگائی کم ہو سکے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مفتاح اسماعیل نے مشکل فیصلے کیے جو وقت کی ضرورت تھے۔ اسحاق ڈار کو یہ فائدہ ہو گا کہ وہ معیشت کے علاوہ سیاسی عمل میں بھی زیادہ دلچسپی اور اثرورسوخ رکھتے ہیں۔‘
’اب وقت ہی بتائے گا کہ وہ مہنگائی کم کرنے اور عام آدمی کو ریلیف دینے میں کامیاب ہو سکیں گے یا نہیں۔‘