اس مرض میں مبتلا افراد کو ڈپریشن یا جذباتی کمزوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فوٹو عرب نیوز
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق 2020 میں دنیا بھر میں بریسٹ کینسر نے 2.3 ملین خواتین کی زندگیوں کو متاثر کیا، صرف اسی سال چھ لاکھ 85 خواتین اس موذی مرض کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئیں۔
عرب نیوز کے مطابق مملکت میں میمو گرافی تحقیق2002 میں متعارف کرائی گئی تھی اس کے باوجود بریسٹ کینسر جیسے مرض سے شفا پانے والی خواتین اور ان کے اہل خانہ پر نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اکتوبر کے مہینے کو بریسٹ کینسر سے آگہی کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے اس میں حاصل کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب میں بریسٹ کینسر میں 55 فیصد کیسزایسے ہیں جب علامات دیر سے ظاہر ہونے کےباعث مریض کے صحت یاب ہونے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اس مرض میں مبتلا 20-30 فیصد خواتین جن کی تشخیص اور علاج کے بعد علامات منفی ظاہر ہوتی ہیں وہ دوبارہ اس کا شکار ہو سکتی ہیں لہٰذا یہ خوف مستقل رہتا ہے کہ موذی مرض کی علامات واپس آ سکتی ہیں۔
کینسر زندگی کے تمام شعبوں کو نمایاں طور پر متاثر کرتا ہے اس لیے مختلف قسم کے جذباتی طرز عمل کے ساتھ ایسے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔
جدہ میں معروف نفسیاتی معاون ڈاکٹر علی زائری نے بتایا ہے کہ بریسٹ کینسر کے دوران مریض نفسیاتی اثرات سے کیسے نمٹیں، اس مرض کے بعد انسان کی نفسیاتی سماجی موافقت ان لوگوں سے مختلف نہیں جو معذوری کے ساتھ زندگی گزارنا سیکھتے ہیں۔
ڈاکٹر علی نے بتایا کہ کینسر کی علامات مریض کو نفسیاتی طور پربھی متاثر کرتی ہیں اور بے یقینی، اضطراب، ناامیدی اور ڈپریشن کے ساتھ نفسیاتی پریشانی اور مایوسی کے جذبات زیادہ ابھرتے ہیں ۔
ڈاکٹر زائری کینسر میں مبتلا مریضوں کی دو مختلف زمروں میں درجہ بندی کرتے ہیں ایک وہ مریض جو بہتر انداز سے اس کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں جو اپنی تشخیص کو قبول کرتے ہیں اور ہر طرح کے علاج کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ کچھ مریض ایسے ہوتے ہیں جو اس بیماری کا انکار کرتے ہوئے طویل عرصہ گزاردیتے ہیں اور عام طور پر شدید اضطراب اور ناامیدی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ڈاکٹر زائری نے بتایا کہ اس مرض میں مبتلا افراد کو ڈپریشن یا اضطراب، نیند کے مسائل، جذباتی کمزوری یا مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایسے مریض جو روزمرہ کی سرگرمیوں کو ممکنہ حد تک معمول کے مطابق رکھنے کے لیے بہتر طریقے سے مقابلہ کرتے ہیں انہیں اپنے رویے کے باعث مرض کے دباؤ کو متوازن رکھنے یا کم کرنے میں مدد ملتی ہے ۔
ڈاکٹر علی نے بتایا کہ ایسے مریض جو علاج میں تعاون نہیں کرتے ، فالو اپ پر توجہ دینے میں ناکام رہتے ہیں وہ پرخطر زندگی سے انکار نہیں کر سکتے اور ڈپریشن ، جذباتی انتشار، نیند کے مسائل اور دیگر مسائل کا شکار بھی رہتے ہیں۔
ایسے مریض میں غصے کی علامات زیادہ ہونے کا امکان رہتا ہے وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے اور اسی باعث عام لوگوں سے الگ تھلگ رہنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے باعث چڑچڑاپن اور پریشانی ان پر غالب رہتی ہے۔
بریسٹ کینسر کی علامات کے حوالے سے اس مرض میں مبتلا دو بچوں کی مان 36 سالہ ایلاف بغدادی نے بتایا ہے کہ میں 2019 میں معمول کے چیک اپ کے لیے ڈاکٹر کے پاس گئی اورچند ہفتوں کے اندربریسٹ کینسر کی تشخیص ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے ٹیسٹ کے نتائج کے لیے اپنے آپ کو پہلے ہی تیار کر لیا تھا اور پرسکون رویے کی بدولت مجھے سرجری اور علاج کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ میں زندگی کے بارے میں پرامید نقطہ نظر رکھتی ہوں اور مجھے پیار کرنے والے میری امید کو زندہ رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔
اس مرض میں مبتلا دیگر شخصیات سے سروے کے مطابق مختلف آرا سامنے آئی ہیں۔ ایک55 سالہ خاتون رجا الخطیب نے بتایا کہ میں اپنی بیماری کو لے کر خودکشی کا خیال بھی ذہن میں لا چکی تھی کیونکہ میرے لیے درد کی اذیت برداشت کرنا انتہائی مشکل تھا تاہم میں نے زندگی میں روشنی کی کرن دیکھی اور اس طرف متوجہ ہو گئی۔
ڈاکٹر علی کا کہنا ہے کہ کینسر کے مریض کے ساتھ بیماری کو مخفی رکھنے کے بجائے اس سے نمٹنے کے لیے کھل کر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے۔
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں