Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف احتجاج، ایک ہزار افراد پر مقدمات

انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہا ہے کہ مظاہرین کے خلاف مقدمات کا آغاز ہو چکا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ایرانی پروسیکیوٹرز احتجاجی مظاہروں میں حصہ لینے والے ایک ہزار افراد پر رواں ہفتے مقدمات چلائیں گے۔
عرب نیوز کے مطابق مہسا امینی کی ہلاکت خلاف تقریباً دو ماہ سے ملک گیر احتجاج ہو رہا ہے۔ ان مظاہروں نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
پیر کو ایران کے چیف جسٹس کے ترجمان نے کہا ہے کہ مقدمات کی سماعت عوامی مقامات پر ہوگی۔
ترجمان کے مطابق احتجاجی مظاہرین کو سکیورٹی فورسز پر حملوں، سرکاری املاک کو آگ لگانے سمیت مظاہرین پر تخریب کاری کی کارروائیوں کے الزامات کا سامنا کرنا ہوگا۔
ترجمان نے مزید کہا کہ کچھ افراد کو سزائے موت کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
یہ مظاہرے 1979 کے انقلاب کے بعد ایرانی حکومت کے لیے بڑے چیلنجز میں سے ایک ہیں۔
16 ستمبر کو ایک کرد ایرانی خاتون مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد ایرانی شہری ملک بھر کے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ مہسا امینی کو مناسب طریقے سے سکارف نہ لینے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

مغربی ممالک میں مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت کے خلاف احتجاج ہوا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ایرانی شہریوں نے 200 سے زیادہ شہروں میں احتجاج کیا۔ ان مظاہروں میں طلبہ اور خواتین نے بھی حصہ لیا۔ خواتین احتجاج کے طور پر اپنے سکارف بھی جلا رہی ہیں۔
سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن میں طاقت کا استعمال کیا۔
حکومت مخالف تنظیم مجاہدین خلق ایران کے اعدادوشمار کے مطابق 450 سے زیادہ افراد کو ہلاک اور کم سے کم 25 ہزار کو گرفتار کیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہا ہے کہ مظاہرین کے خلاف مقدمات کا آغاز ہو چکا ہے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں حکومت مخالف احتجاج میں شامل محمد قبادلو کی والدہ نے کہا ہے کہ دو دن قبل ان کے بیٹے کو موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ان کا بیٹا بیمار ہے اور عدالت نے ان کے وکیل کو بھی کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت نہیں دی۔
’انہوں نے بغیر کسی وکیل کے اس سے پوچھ گچھ کی اور پہلی سماعت ہی میں اس کو موت کی سزا سنائی۔ وہ اسے جلد سے جلد پھانسی دینا چاہتے ہیں۔‘

ایرانی خواتین نے حجاب یا سکارف کے بغیر حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ واضح ہوگیا ہے کہ حکومت ان احتجاجی مظاہروں کو ایک سنگین خطرے کے طور پر دیکھ رہی ہے۔
امریکی ٹینیسی یونیورسٹی کے سیاسی امور کے ماہر سعید گلکار کے مطابق ایرانی عوام ماضی کے مقابلے میں حکومت کو چیلنج کرنے کے لیے زیادہ پُرعزم دکھائی دے رہے ہیں۔
’بدقسمتی سے تاریخ نے ہمیں دکھایا ہے کہ وہ اقتدار میں رہنے کے لیے کسی بھی قسم کا تشدد استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘
اسرائیل کی ریکمین یونیورسٹی کے میئر جاوید انفار کا کہنا ہے کہ حکومتی اہلکاروں کے ابتدائی دعوؤں کے باوجود ان مظاہروں میں کمی واقع نہیں ہو رہی۔
بین الاقوامی سطح پر مظاہرین کے خلاف ایرانی حکومت کی کارروائیوں کی مذت کی جا رہی ہے۔
جرمنی کے چانسلر اولف شُلز نے کہا ہے کہ یورپی یونین ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز کے حد سے زیادہ  تشدد کے استعمال کی مذمت کرتے ہیں اور ہم ایرانی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘

شیئر: