Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی وزیر توانائی کی انڈونیشی اور پرتگالی وزرا سے ملاقات، تعاون بڑھانے کا جائزہ

تیل کی عالمی منڈیوں کے استحکام کی حمایت کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے( فائل فوٹو ایس پی اے)
سعودی عرب نے انڈونیشیا اور پرتگال کے ساتھ تمام شعبوں میں دوطرفہ تعلقات کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایس پی اے کے مطابق سعودی وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے اپنے انڈونیشی ہم منصب عارفین تسریف کے ساتھ ریاض میں ملاقات کی۔
عرب نیوز کے مطابق ملاقات میں نوٹ کیا گیا کہ سعودی عرب ایک قابل اعتماد پارٹنر اورانڈونیشیا کو خام تیل اور ریفائنڈ پیٹرولیم مصنوعات کی سپلائی کا ایک بڑا برآمد کنندہ ہے۔
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق فریقین نے توانائی کے شعبے میں تعلقات کو مضبوط بنانے کی اہمیت پر بھی زور دیا جس میں ریفائننگ، پیٹرو کیمیکل، بجلی اور قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنے کے لیے مشترکہ کام شامل ہے۔
شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان اورعارفین تسریف نے توانائی کی پیداوار اور کھپت کی کارکردگی کو بڑھانے،سرکلر کاربن اکانومی اپروچ، اس کی ٹیکنالوجیز اور ایپلی کیشنز کے بارے میں بیداری اور علم کو بڑھانے کی کوششوں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
دریں اثنا شہزادہ عبدالعزیز نے پرتگالی وزیر برائے ماحولیات اور موسمیاتی ایکشن کے ساتھ بھی ملاقات کی۔
 ملاقات کے دوران فریقین نے تیل کی پیداواراوراستعمال کرنے والے ممالک کے درمیان بات چیت اور تعاون کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے تیل کی عالمی منڈیوں کے استحکام کی حمایت کی اہمیت پر زور دیا۔
انہوں نے مستقبل قریب میں توانائی کے شعبے میں مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کرنے کا اعلان کرتے ہوئے دوطرفہ تعاون کو بڑھانے کی خواہش کا اعادہ کیا۔
 ایس پی اے کے مطابق ملاقات میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ مملکت ایک قابل اعتماد شراکت دار ہے اور پرتگال کو خام تیل برآمد کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔
ملاقات میں توانائی کے کئی شعبوں جن میں صاف ہائیڈروجن اور قابل تجدید توانائی، قابل تجدید توانائی سے پیدا ہونے والی بجلی کا گرڈز میں انضمام، برقی نظاموں کی سلامتی، اور ان کی بین الاقوامی تجارت اور باہمی ربط شامل ہیں میں تعاون کی اہمیت پر زور دیا گیا۔
دونوں وزرانے کہا کہ توانائی اور آب و ہوا کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے توانائی کی منتقلی اہم ہے جس پر مصر کے تفریحی شہر شرم الشیخ میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس کوپ 26 میں مزید وسیع بحث کی جائے گی۔

شیئر: