صحافی ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ آج ہی درج کیا جائے: سپریم کورٹ
صحافی ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ آج ہی درج کیا جائے: سپریم کورٹ
منگل 6 دسمبر 2022 9:08
سپریم کورٹ نے سیکریٹری داخلہ، خارجہ اور اطلاعات کو نوٹس جاری کر دیے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی سپریم کورٹ نے صحافی ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ فوری طور پر درج کرنے کا حکم دیا ہے اور حکومت کو قتل کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ بھی عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
منگل کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے ارشد شریف کے قتل کا ازخود نوٹس لینے کے بعد پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ وفاقی سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری خارجہ اور سیکریٹری اطلاعات عدالت میں پیش ہوئے۔
لارجر بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان سے استفسار کیا کہ ابھی تک ارشد شریف قتل کے حوالے سے حکومت کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ سپریم کورٹ میں کیوں پیش نہیں کی گئی۔
عدالت کو بتایا گیا کہ رپورٹ چھٹیوں میں موصول ہوئی تو وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کو دکھائی گئی جو فیصل آباد میں تھے۔ رپورٹ اب چیف ایگزیکٹو کو دکھانی ہے۔ عدالت نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیر داخلہ کو بلا لیتے ہیں وہ کہاں ہیں۔
ایڈشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ رپورٹ کل تک پیش کر دی جائے گی۔ جس پر عدالت نے حکم دیا کہ اسے آج ہی سپریم کورٹ میں جمع کروائی جائے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’سنا ہے کہ یہ 600 صفحات پر مشتمل رپورٹ ہے، ہم اسے دیکھنا چاہتے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تحقیقات کرنا حکومت کا کام ہے عدالت کا نہیں۔ ’ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ اب تک حکومت نے اس سلسلے میں کیا کیا ہے۔ ارشد شریف ملک کے صف اول کے صحافی تھے انہیں کیوں قتل کیا گیا؟‘
عدالت نے سیکریٹری خارجہ اسد مجید سے پوچھا کہ بتائیں اب تک کینیا کی حکومت کے ساتھ پاکستان نے معاملہ کس حد تک اٹھایا اور کیا بات چیت کی گئی۔
چیف جسٹس نے امریکی سائفر سے شہرت حاصل کرنے والے اسد مجید کو مخاطب کرکے کہا ’آپ پہلے سے مشہور ہیں، آپ کی وزارت نے سارے معاملے میں کوارڈینیٹ کرنا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ سوشل میڈیا کیا کہہ رہا ہے۔ اختیارات رکھنے والے لوگوں پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ تصور کریں کہ کس کس پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ یہ خطرناک رجحان ہے اگر کوئی ملوث ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق ایکشن لیا جائے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’حکومت کو چاہیے تھا کہ سپریم کورٹ میں فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جمع کرواتے اور بتا دیتے ہیں کہ کچھ حساس معاملات ہیں جن کو یہاں ڈسکس نہ کیا جائے۔ ہم حکومت کے خدشات پر بھی توجہ دیتے۔‘
چیف جسٹس کے مطابق 23 اکتوبر سے اب تک 43 دن انتظار کر چکے ہیں ابھی تک میڈیکل رپورٹ تک نہیں دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کا قتل تشویشناک ہے، صحافی سچ کی آواز ہیں اگر وہ جھوٹ بول رہے ہیں تو حکومت ان کے خلاف قانون لائے اور قانون کے مطابق ان کے خلاف ایکشن لیں۔
عدالت نے سیکریٹری داخلہ سے استفسار کیا کہ ارشد شریف کے قتل کے ایف آئی آر پاکستان میں درج کیوں نہیں کی گئی۔ جس پر سیکرٹری داخلہ کا کہنا تھا کہ اسے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں مختلف معاملات سامنے آئے ہیں اس کی روشنی میں ایف آئی ار درج کی جائےگی۔
اس پر بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ ’ایف آئی آر کسی بھی قسم کی تحقیقات کا نقطہ آغاز ہوتی ہے اگر ایف آئی آر ہی نہیں ہوئی تو تحقیقات کس بنیاد پر کی گئی ہیں۔‘
اس کے بعد عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو ہدایت کی کہ آج ہی مقدمہ درج کیا جائے اور کل اسے سپریم کورٹ میں پیش کیا جائے۔
عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے سیکریٹری داخلہ اور خارجہ کو پیش ہونے سے استثنٰی دے دیا۔
قبل ازیں ترجمان سپریم کورٹ کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ صحافی برادری اور عوام ارشد شریف کے قتل پر شدید پریشانی اور تشویش کا شکار ہیں۔
پاکستان کے نامور صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف کو کینیا میں قتل کر دیا گیا تھا۔
پاکستانی صحافی کی موت کے حوالے سے کینیا کی پولیس کی سربراہ این مکوڑی نے کہا کہ مطابق پاکستانی شہری ارشد شریف کی ہلاکت کا واقعہ 23 اکتوبر رات 10 بجے پیش آیا۔
کینیا کے اخبار دا سٹار کے مطابق ارشد شریف کی موت نیروبی کے قریب ہائی وے پر ہوئی۔
اخبار نے ایک پولیس افسر کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے ارشد شریف کی موت پولیس کی گولی لگنے سے ہونے کی تصدیق کی اور رپورٹ کیا کہ پولیس نے اسے ’شناخت کی غلطی‘ قرار دیا ہے۔
پاکستان کے وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے کہا تھا کہ ’اب تک کے حقائق سے واضح ہے کہ ارشد شریف کو ہدف بنا کر قتل کیا گیا۔ شناخت کی غلطی کی وجہ سے قتل کا شبہ درست نہیں لگتا۔‘