Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ستمگر دسمبر‘، 12ویں ماہ رونما ہونے والے دلخراش واقعات

27 دسمبر 2007 کو بے نظیر کو لیاقت باغ میں فائرنگ اور دھماکے کا نشانہ بنایا گیا (فوٹو: اے ایف پی)
آزادی کے بعد دسمبر 1947 میں جب فیض احمد فیض کی نظم ’یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر‘ معروف جریدے ’سویرا‘ میں شائع ہوئی تو یوں لگا جیسے مستقبل کا سارا منظرنامہ ان کی آنکھوں کے سامنے ہو۔
اگلی چند دہائیوں میں نوزائیدہ ریاست نے ایسے ہولناک تجربات کا سامنا کیا کہ فیض کی کہی ایک ایک بات درست ثابت ہوئی۔
 سانحات و تلخ تجربات کی اگر فہرست مرتب کی جائے تو پاکستان میں پیش آنے والے کئی افسوسناک واقعات بھی ماہ دسمبر میں ہی رونما ہوئے۔

ادبی جریدے ’سویرا‘ کے تیسرے شمارے میں چھپنے والی فیض کی نظم ’سحر‘ کا عکس (بشکریہ ریختہ)

ان میں تین بڑے سانحات مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی، سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا  قتل اور سانحہ آرمی پبلک سکول بھی شامل ہیں۔ تاہم دیگر متعدد افسوسناک واقعات بھی دسمبر میں ہی رونما ہوئے۔

1965 کا سمندری طوفان

سمندر کے قریب ہونے کے باعث بنگال شروع سے ہی سمندری طوفانوں کی زد میں آتا رہا ہے۔
 14، 15 دسمبر 1965 کو مشرقی پاکستان میں آنے والے سمندری طوفان نے غیرمتوقع طور پر بہت زیادہ تباہی مچائی۔ سینٹ پیٹرزبرگ ٹائمز میں چھپنے والی خبر کے مطابق خلیج بنگال سے آنے والے  سمندری طوفان اور تیز ہواؤں نے 70 سے 80 فیصد گھروں کو ملیا میٹ کر دیا تھا اور 10 سے 15 ہزار افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

روزنامہ نوائے وقت (راولپنڈی ) میں 17 دسمبر 1965 کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 15 ہزار تھی۔

مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی

دسمبر 1970 میں ہونے والے انتخابات کے بعد انتقال اقتدار کے معاملے پر سیاسی جماعتوں میں تنازع پیدا ہو گیا جس کے بعد مشرقی پاکستان میں مزاحمت شروع ہو گئی۔
اس وقت مشرقی پاکستان کے لوگوں کے جذبات سمندری طوفان کی تباہ کاریوں اور اس  کے بعد ناکافی سرکاری امداد کی وجہ سے بھی مشتعل تھے۔
وفاقی حکومت نے انتخابات کے بعد شروع ہونے والی کشیدگی کوختم کرنے کے لیے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا لیکن دسمبر 1970 سے دسمبر 1971 تک یہ کشیدگی کئی گنا بڑھ گئی۔ مختلف جھڑپوں کے بعد نومبر 1971 کے اواخر میں انڈین فوج نے مشرقی پاکستان پر تین اطراف سے حملہ کر دیا۔
کئی روز کی جنگ کے بعد 16 دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان کے محاذ پر فوجی کمانڈ نے ہتھیار ڈال دیے۔  

بعد میں آنے والی تفصیلات بھی کافی تکلیف دہ تھیں۔ بالخصوص سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے نومبر 2016 میں دی اٹلانٹک کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ اس وقت کے صدر یحیٰی خان نومبر 1971 میں اس بات پر رضا مند ہو چکے تھے کہ مشرقی پاکستان کو اگلے برس میں مارچ تک مکمل خودمختاری دے دی جائے گی۔

دسمبر 1974 کا زلزلہ سوات
وادی سوات میں 28 دسمبر 1974 کو آنے والے زلزلے کے نتیجے میں 5 ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔
پتن اورجلال نامی دو گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ زلزلے سے ضلع  ہزارہ، ہنزہ، سوات سمیت شاہراہ قراقرم کو بھی کافی نقصان پہنچا تھا۔  

سانحہ قصبہ، علی گڑھ کالونی کراچی

سرد جنگ کے دنوں میں افغانستان اور صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) سے بہت سے پشتون کراچی جا کر آباد ہو گئے تھے۔ اس سے قبل قیام پاکستان کے وقت مہاجرین کی بڑی تعداد نے کراچی ہی کو اپنا مسکن بنایا تھا۔
80 کی دہائی میں شہر کراچی سے باہر کچی بستیاں اسلحے، منشیات اور سمگل شدہ اشیا کی خرید و فروخت کا بڑا مرکز بن گئیں۔ سپر ہائی وے کے قریب سہراب گوٹھ میں پولیس نے سکیورٹی اداروں کے ساتھ مل کر 12 دسمبر 1986 کو بڑے پیمانے پر کارروائی کا آغاز کیا اور پولیس نے ساری بستی اکھاڑ کر بلڈوزر پھیر دیا۔
اس کے جواب میں قصبہ کالونی، علی گڑھ کالونی اور اورنگی ٹاون کے سیکٹر ڈی میں پشتون برادری سے تعلق رکھنے والے مسلح افراد نے انڈیا سے آنے والے مہاجرین پر حملہ کر دیا  جس میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس واقعے میں 49 جب کہ میڈیا رپورٹس  کے مطابق 400 سے زائد افراد جان سے گئے۔ اس حملے میں ہزاروں افراد زخمی ہوئے جبکہ سینکڑوں گھر بھی جلائے گئے۔
لاہور میں 100 بچوں کا قتل
دو دسمبر 1999 کو لاہور پولیس کے نام ایک خط میں جاوید اقبال نامی شخص نے 100 بچے قتل کر کے تیزاب میں جلانے کا اعتراف کیا۔

جاوید اقبال کے کردار پر پاکستان میں فلم بھی بنائی گئی تھی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

جاوید اقبال نے 30 دسمبر 1999 کو روزنامہ جنگ کے دفتر پہنچ کر پولیس کو گرفتاری دی تھی۔
بعد ازاں پھانسی کی سزا کے خلاف اپیل کے دوران ہی جاوید اقبال نے اپنے ساتھی ساجد کے ساتھ جیل میں 9 اکتوبر2000 کو خودکشی کر لی تھی۔

صدر جنرل پرویز مشرف پر حملہ

دسمبر 2003 میں اس وقت کے صدر پرویز مشرف کو دو مرتبہ بم دھماکے کے ذریعے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی مگر وہ معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔
دوسرے حملے میں صدر کے قافلے کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔
بے نظیر بھٹو کا قتل
دسمبر 1988 کو ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم کا منصب سنبھالنے والی بے نظیر بھٹو کی موت بھی دسمبر ہی کے مہینے میں ہوئی۔

بے نظیر بھٹو نے لیاقت باغ میں جلسے کے اختتام پر انہیں جلسہ گاہ سے باہر نکلتے ہوئے فائرنگ اور بم حملے میں قتل کردیا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اکتوبر 2007 کو کراچی میں  کارساز پل کے قریب انتہائی خوفناک حملے میں بال بال بچ جانے کے باوجود بے نظیر بھٹو عوامی رابطہ مہم سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہوئیں۔
27 دسمبر 2007 کی شام راولپنڈی  کے لیاقت باغ میں جلسے کے اختتام پر انہیں جلسہ گاہ سے باہر نکلتے ہوئے ان پر فائرنگ کی گئی اور ساتھ ہی بم دھماکہ بھی ہوا جس میں وہ جان سے چلی گئیں۔

راولپنڈی پریڈ لین مسجد پر خود کش حملہ

چار دسمبر 2009 کو راولپنڈی میں فوجی ہیڈکوارٹرز کے قریب ایک مسجد پر پانچ خودکش حملہ آوروں نے حملہ کر دیا تھا جس کے نتیجے میں قریباً 40 افراد جان سے گئے تھے۔
حملہ آور مسجد میں داخل ہونے کے بعد تقریباً پونے گھنٹے تک فائرنگ کرتے رہے، جس میں 17 بچے بھی مارے گئے۔

بشیر بلور کا قتل

22 دسمبر 2012 کو عوامی نیشنل پارٹی کے سینیئر رہنما بشیر احمد بلور کو پشاور میں ایک خودکش حملے میں قتل کر دیا گیا۔

22 دسمبر 2012 کو بشیر احمد بلور کو پشاور میں ایک خودکش حملے میں قتل کر دیا گیا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

اسی ماہ 24 اور 25 دسمبر 2012 کی درمیانی شب کراچی کے علاقے ڈیفنس میں معمولی تلخی کی بنیاد پر شاہ رُخ جتوئی نے شاہ زیب خان نامی نوجوان کو قتل کر دیا تھا۔

سانحہ آرمی پبلک سکول

16 دسمبر2014 کی صبح ابھی شاید سقوط  ڈھاکہ کے سوگ کی تقریبات کا آغاز بھی نہ ہوا تھا کہ پشاور کا آرمی پبلک سکول دہشت گردوں کی گولیوں سے گونج اٹھا۔ سکیورٹی اہلکاروں کی وردی میں ملبوس دہشت گردوں نے 132 بچوں سمیت 141 افراد کی جان لی۔
اس حملے میں 150 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔ واقعے میں ملوث چار مجرموں کو اگلے برس دو دسمبر کو پھانسی دی گئی۔

فضائی  حادثے میں جنید جمشید کی ہلاکت

7 دسمبر 2016 کو چترال سے اسلام آباد آنے والا پی آئی اے کا طیارہ پی کے 661 حویلیاں کے قریب حادثے کا شکار ہو گیا۔ حادثے کے نتیجے میں عملےسمیت 47 افراد ہلاک ہو گئے، جن میں معروف مبلغ جنید جمشید بھی شامل تھے۔

شیئر: