پاکستانی فوج نے جھڑپ سے متعلق سرکاری طور پر اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا، تاہم ایک سینیئر پاکستانی سیکورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کے وسیم عباسی سے بات کرتے ہوئے جھڑپوں کی تصدیق کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تنازع اس وقت پیدا ہوا جب افغان طالبان نے پاکستانی حدود میں چیک پوسٹ قائم کرنے کی کوشش کی۔ پاکستانی اہلکاروں نے طالبان کو منع کیا تو انہوں نے فائرنگ شروع کردی جس پر پاکستانی اہلکاروں کو جوابی کارروائی کرنا پڑی۔
دوسری جانب افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں لکھا ہے کہ ’قندھار کے علاقے سپن بولدک میں پاکستانی محافظوں کے ساتھ فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ہے، دونوں طرف کے حکام کو مطلع کردیا گیا ہے اور صورتحال اب قابو میں ہے۔ ہم اس بات کی مکمل تحقیقات کریں گے کہ ایسا کیوں ہوا۔‘
چمن میں مقامی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ جھڑپ کا آغاز جمعرات کو دوپہر تقریباً 12 بجے پاک افغان سرحد پر واقع مرکزی گزرگاہ باب دوستی سے تقریباً دو کلومیٹر دور مشرق کی جانب کلی شیخ لعل محمد سے ہوا۔
اس کے بعد کشیدگی باب دوستی اور آٹھ سے دس کلومیٹر کے علاقے میں قائم چیک پوسٹوں تک پھیل گئی۔اس دوران کلی گہوری کہول، کلی اڈہ کہول، کلی باچا اور ملحقہ علاقوں میں سرحد پر دونوں جانب قائم چیک پوسٹوں پر تعینات پاکستانی اور افغان سرحدی محافظوں نے ایک دوسرے پر فائرنگ شروع کردی۔
مقامی افراد کے مطابق جھڑپوں کے دوران دونوں جانب سے ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔ توپوں سے بھی گولے داغے گئے۔ اس دوران متعدد راکٹ گولے چمن شہر کے مختلف علاقوں میں خالی میدانوں میں لگے تاہم اس سے کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔
چمن کے علاقے کلی باچا کے رہائشی جانان اچکزئی نے بتایا کہ کشیدہ صورت حال میں سرحد کے قریب رہنے والے شہری شدید خوفزدہ ہیں اور درجنوں لوگ گھر چھوڑ کر محفوظ مقامات پر بھی منتقل ہوگئے ہیں۔
چمن لیویز کے ایک اہلکار عجب خان نے بتایا کہ اس کشیدہ صورت حال میں سرحد کو ہر قسم کی پیدل آمدروفت کے لیے بند کردیا گیا جبکہ تجارتی گاڑیوں کو بھی روک دیا گیا ہے۔
باب دوستی سے ملحقہ کسٹم ہاؤس کو بھی خالی کرادیا گیا۔ جھڑپ کے وقت دونوں جانب خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں افراد سرحد عبور کرنے کی غرض سے موجود تھے۔
چمن کے ڈپٹی کمشنر کیپٹن ریٹائرڈ جمعہ داد مندوخیل نے شہر کے سرکاری ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی۔ سول ہسپتال چمن کے ایک ڈاکٹر کے مطابق ہسپتال میں 15 سالہ ایک لڑکے کو ہسپتال لایا گیا جسے پاؤں میں گولی لگی ہے، جبکہ چمن سرحد پر تعینات فرنٹیئر کور کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جھڑپ میں ایف سی کے چار اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔
دوسری جانب افغانستان کے سرحدی علاقے سپین بولدک میں جھڑپوں سے جانی نقصانات کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ جھڑپ کے بعد طالبان نے البدر فورس کے اضافی دستے علاقے میں بھیجے ہیں۔سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر جاری کی گئی تصاویر میں طالبان جنگجوؤں کو سرحد کی طرف جاتے دکھایا گیا ہے۔
سرحد سے تقریباً 100 کلومیٹر دور واقع صوبہ قندھار کے دارالحکومت میں ایک ہسپتال کے ڈاکٹر نعمت شہزاد نے اے ایف پی کو بتایا کہ جھڑپ میں دو افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے جبکہ افغانستان کے ایک اور سکیورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو تین ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے اور بتایا کہ دو درجن سے زائد افغان زخمی ہوئے ہیں جن میں متعدد طالبان جنگجو بھی شامل ہیں۔
کوئٹہ میں محکمہ داخلہ کے ایک سینیئر اہلکار نے اردو نیوز کو بتایا کہ پاکستان اور افغان طالبان کے اعلیٰ حکام کے درمیان رابطے ہوئے ہیں جس کے بعد کشیدگی میں کمی آئی ہے اور فائرنگ کا سلسلہ رک گیا ہے۔
خیال رہے کہ چمن پاک افغان سرحد پر اس سے قبل بھی اس طرز کی جھڑپیں ہوچکی ہیں تاہم افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد یہ اپنی نوعیت کی پہلی جھڑپ ہے جس میں بھاری ہتھیار بھی استعمال کیے گئے ہیں۔ مئی 2017 میں مردم شماری کے تنازع پر اس وقت کی افغان فورسز اور پاکستانی اہلکاروں کے درمیان جھڑپوں میں 50 سے زائد افراد مارے گئے تھے۔