سعودی عرب میں سائبر سیکیورٹی کے لیے مزید کام کی ضرورت ہے، کاسپرسکی
سعودی عرب میں سائبر سیکیورٹی کے لیے مزید کام کی ضرورت ہے، کاسپرسکی
اتوار 18 دسمبر 2022 17:52
پچیس سال قبل کمپیوٹر فقط ٹائپنگ مشین تھی اب کاروباری طریقہ کار کا حصہ ہے۔ فوٹو عرب نیوز
معروف انٹرنیشنل ڈیجیٹل سیکیورٹی کمپنی کاسپرسکی کے چیف ایگزیکٹو افسر کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور عالمی سطح پر کمپنیوں کو یہ تصدیق کرلینی چاہیے کہ ان کے پاس سائبرحملوں کاجدید ڈیفنس موجودہے۔
عرب نیوز کے مطابق چار ہزارملازمین والی آئی ٹی سیکیورٹی کمپنی کاسپرسکی کے سی ای او اور کوفاؤنڈر یوجین کاسپرسکی نے ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا ہےکہ سائبر سیکیورٹی سسٹمز کے لیے ضوابط متعارف کروائے جانے چاہئیں۔
انہوں نے بتایا کہ 2022 میں کی گئی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ سعودی عرب میں کمپیوٹر استعمال کرنے والوں کا ایک تہائی حصہ سائبر حملوں آوروں کا نشانہ بنتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کاروبار سے متعلقہ رہنما اصولوں پر اسی طرح عمل کرنا چاہیے جس طرح وہ آگ کے خطرات کے لیے رہنما اصول اپناتےہیں۔
ان کی فرم کی جانب سے کئی گئی تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس سال جنوری سے مشرق وسطیٰ، ترکی اور افریقی ممالک کے صارفین کا ایک تہائی حصہ آن لائن اور آف لائن خطرات سے متاثر ہوا ہے۔
آف لائن خطرات مقامی نیٹ ورکس میں یو ایس بی یا دیگر آف لائن ذرائع سے پھیلائے جانے والے میلویئر ہیں جب کہ آن لائن خطرات میلویئر یا دھوکہ دہی ہیں جو ویب کا استعمال کرتے ہیں۔
سعودی عرب خطے میں 33.3 فیصد صارفین کو اس طرح کے مسائل کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہےجب کہ قطر میں39.8 فیصد اور بحرین میں 36.5 فیصد اس طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔
آف لائن خطرات کی بات کی جائے تو سعودی عرب میں سب سے کم تعداد 32 فیصد متاثرہ صارفین کی تھی۔ مصر، قطر اور اردن میں بالترتیب 42.4 فیصد، 33.9 فیصد اور 33.2 فیصد کے ساتھ متاثرہ صارفین کا نمبر سب سے زیادہ رہا۔
کاسپرسکی کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سال کی تین سہ ماہیوں میں اس خطے میں 43 فیصد صنعتی کمپیوٹرز کو نشانہ بنایا گیا جس میں اہم بنیادی ڈھانچے کی صنعتیں جیسے مینوفیکچرنگ، تیل، کان کنی اور کیمیکلز انڈسٹری شامل ہے۔
کاسپرسکی کا کہنا تھا کہ پچیس سال قبل کمپیوٹر فقط ٹائپنگ مشینیں تھے پھر یہ مشین کاروباری طریقہ کار کا حصہ بن گئی اور اب کمپیوٹر انفراسٹرکچر مینجمنٹ کا حصہ بن رہے ہیں، ہم سائبر ٹیکنالوجیز کے زیادہ سے زیادہ مرہون منت ہوتے جا رہے ہیں اور سائبر ہمارے ہر عمل میں شامل ہوتا جا رہا ہے۔
چیف ایگزیکٹوافسر نے واضح کیا کہ حکومت کو سائبر سسٹمز کے لیے ایسے ضابطے متعارف کروانے چاہئیں جو دیگر سسٹمز جیسے فائر الارم، تعمیرات، شہری سہولیات وغیرہ پر لاگو ہوتے ہیں جس کے تحت کمپنیوں سے توقع کی جائے کہ وہ معیار پرعمل کریں گی اور اگر کمپنیاں ایسا نہیں کرتیں تو جرمانےعائد کئے جائیں۔
خلیج تعاون کونسل کے خطے میں سائبر خطرات کے منظر نامے کا عالمی سطح سے موازنہ کرتے ہوئے کاسپرسکی کا کہنا ہے کہ یہ کم و بیش ایک جیسا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سائبر حملوں سے قومی یا عالمی معیشتوں کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگانا ممکن نہیں کیونکہ مالیاتی نتائج کی اطلاع نہیں دی جاتی لیکن وہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ معیشت کے ایک فیصد کے لگ بھگ ہے۔
سائبرسیکیورٹی کے لیے کمپنیوں کی طرف سے مختص کیے جانے والے بجٹ کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ اوسطاً کسی فرم کے آپریشنل بجٹ کا ایک فیصد سے بھی کم کافی ہے۔