یہ کار شو ریاض سے 130 کلومیٹر شمال میں منعقد کیا گیا۔ 45 روزہ اونٹ فیسٹول یکم دسمبر کو شروع ہوا جو مشرق وسطیٰ میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا اونٹ فیسٹول ہے۔
یہ جزیرہ نما عرب کی تاریخ اور اس کے لوگوں کی زندگی کو کئی انٹرایکٹو حصوں کے ذریعے ظاہر کرتا ہے جو وزیٹرز کو ماضی کی طرف لے جاتے ہیں۔ ثقافت اور قومی ورثے کو مستحکم کرنے میں سعودی کوششوں کو اجاگر کرتے ہیں۔
کنگ عبد العزیز اونٹ فیسٹول کے ترجمان محمد الحربی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’اس جشن کا مقصد مقامی ورثے کو زندہ کرنا ہے کیونکہ اونٹوں کے مالکان ایک خاص موقع پر جشن مناتے ہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’کلاسک کار شوز کا آغاز کیا گیا تاکہ اونٹوں کے مالکان لگژری گاڑیوں کو کرائے پر لے کر پریڈ میں لے جا سکیں‘۔
کنگ عبد العزیز اونٹ فیسٹول کے ترجمان نے کہا کہ کلاسک کاریں جزیرہ نما عرب کے لوگوں میں مشہور اور پسند کی جاتی ہیں۔ یہ گاڑیاں ماضی کے بہت سے لوگوں کے تجربات کی نقل کرتی ہیں‘۔
محمد الحربی نے کہا کہ ’ میلے کی سرگرمیاں، بشمول اونٹ شوز اور کلاسک کاروں کا جلوس، جزیرہ نما عرب کے اہم ثقافتی اجزا میں سے ہیں اور یہ ایک ایسے ورثے پر مبنی ہیں جس پر مملکت کو فخر ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ ہم وزیٹرز کی آنکھوں میں جوش و خروش بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ فیسٹول صحرا کے کچھ اونٹوں کے بارے میں نہیں ہے جو خاندانوں کی تاریخ اور ان کی روایات کو پیش کرتا ہے جو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتے ہیں‘۔
’یہ ورثہ نہ صرف جزیرہ نما عرب کے بدوؤں سے متعلق ہے بلکہ ان دیہاتیوں سے بھی ہے جو اپنی روزمرہ کی ضروریات جیسے پانی اور خوراک کی نقل و حمل کے لیے اونٹوں پر انحصار کرتے تھے‘۔
محمد الحربی نے کہا کہ ’ جزیرہ نما عرب کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اونٹوں کے گرد موجود ورثے اور خطے کی تاریخ میں ان کا مقام رکھیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ہم نے کتنی ہی ترقی کی ہے، ہم اپنی اقدار، اصولوں اور اپنے عظیم ورثے پر قائم ہیں۔‘