Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کراچی بلدیاتی الیکشن کے نتائج کیا کے ٹو سے چل کر آ رہے ہیں‘

پیپلزپارٹی نے 93 اور جماعت اسلامی نے 86 نشستیں حاصل کیں (فائل فوٹو: ٹوئٹر، جماعت اسلامی)
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں سوا دو برس کی تاخیر کے بعد 15 جنوری کو بلدیاتی انتخابات تو ہو کر مکمل ہو گئے لیکن ان کے نتائج میں تاخیر نظر انداز نہ ہوسکی۔
الیکشن میں حصہ لینے والی جماعتوں، ان کے رہنماؤں اور سوشل میڈیا صارفین نے الیکشن کمیشن اور صوبائی حکومت و انتظامیہ کو تنقید کے نشانے پر رکھا۔
کراچی میں 15 جنوری کی شام پانچ بجے مکمل ہونے والی ووٹنگ کے نتائج تقریبا 25 فیصد ٹرن آؤٹ کے باوجود تاخیر کا شکار ہوئے۔ دور دراز مضافاتی علاقوں کے نتیجوں کا اعلان پہلے ہوا اور مرکزی شہری علاقوں کا سب سے آخر میں، اسی دوران حیدرآباد، بدین وغیرہ میں ہونے والے انتخابات کے مکمل نتائج کا اعلان ہونا وہ پہلو رہے جو مسلسل الیکشن کمیشن اور حکومت پر سوالات کی وجہ بنتے رہے۔
فہمیدہ یوسفی نے نتائج میں تاخیر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’کراچی بلدیاتی الیکشن کے نتائج کیا کے ٹو پہاڑی سے چل کر آرہے ہیں۔‘

سرل المیڈا نے انتخابی عمل کے دوران مبینہ بے ضابطگیوں اور دھاندلی کی شکایات کے تناظر میں لکھا کہ ’کراچی کے انتخابات ملک میں سب سے زیادہ دھاندلی زدہ ہونے کا ریکارڈ برقرار ہے۔‘

شوکت عزیر صدیقی ایڈووکیٹ نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’پولنگ ختم ہونے کے 24 گھنٹے بعد تک نتائج کا اعلان نہ ہونا خطرہ کی علامت ہے چيف اليکشن کمشنر صاحب کے پاس کيا وضاحت ہے اس تاخير کی؟ اگر نتائج کے ساتھ کوئی کاریگری کی گئی تو اس سے انتشار اور افراتفری کی صورتحال پيدا ہو سکتی ہے جس کا پاکستان مُتحمل نہيں ہو سکتا۔‘

فیصل مراد نے ایک سکرین شاٹ ٹویٹ کیا جس میں کیے گئے طنزیہ تبصرے میں لکھا تھا کہ ’کراچی چونکہ صحرائی علاقہ ہے اس لیے وہاں سے ریزلٹ آنے میں 24 گھنٹے لگ رہے ہیں جب کہ دادو، بدین، سجاول تو دنیا کے سب سے ترقی یافتہ شہر ہیں ان کے نتائج دو گھنٹے میں آ گئے۔‘

ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے تقریبا 29 گھنٹوں بعد پیر کی رات 235 یونین کمیٹیوں کے نتائج مکمل ہوئے تو الیکشن میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں نے موقف اپنایا کہ یہ ان کے پولنگ ایجنٹس کو دیے گئے فارم 11 کے نتائج سے مختلف ہیں اور اس میں حکومتی جماعت پیپلز پارٹی کو فائدہ پہنچایا گیا ہے۔
پیپلزپارٹی کے حامی ٹویپس نے اپنی جماعت کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا۔ اشا محمود نے لکھا کہ ’قیادت سمیت تمام جیالوں کو مبارک۔‘

الیکشن کمیشن کے عملے کو نتائج میں تاخیر اور دیگر خرابیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تو انتخابی عمل کے ذمہ دار ادارے نے اس تاثر کی نفی کی۔
الیکشن کمیشن کے ترجمان کی جانب سے ایک ویڈیو کلپ شیئر کرتے ہوئے لکھا گیا کہ ’بلدیاتی الیکشن کا جنرل الیکشن سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ سندھ میں 2015 کے  بلدیاتی انتخابات میں نتائج تین روز میں مکمل ہوۓ تھے۔ سیاسی جماعتیں  بے بنیاد الزامات سے گریز کریں۔ دھاندلی کا سوال ہی  پیدا نہیں ہوتا۔ تمام پولنگ ایجنٹس کو فارم 11/12کی کاپیاں دی گئیں۔‘

الیکشن کمیشن کی جانب سے میڈیا کو فراہم کردہ نتائج کے مطابق کراچی میں 86 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہنے والی جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے ایک ویڈیو پیغام میں ’انتخابی نتائج میں تاخیر اور ردوبدل پر منگل کو احتجاج کا اعلان کیا۔‘
ٹوئٹر پر سراج الحق کے اکاؤنٹ سے لکھا گیا کہ ’2018ء کی طرح الیکشن پر کسی کو شب خون مارنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ نتائج تبدیل کیے گئے تو کراچی سمیت پورے ملک میں احتجاج ہوگا۔  نتائج میں تاخیر سے عوام کے ذہنوں میں شبہ پیدا ہو رہا ہے، الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری ادا کرے، درست نتائج کا اعلان کیا جائے۔‘

اسی دوران کراچی سے یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ تحریک انصاف نے انتخابی نتائج کے خلاف ’شاہ فیصل کالونی میں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر کے دفتر کے باہر دھرنا دیا اور ٹائر جلا کر احتجاج کیا‘ ہے۔
گومگو کی کیفیت میں رہنے کے بعد ہونے والے کراچی کے انتخابات پر گفتگو ہوئی تو عبداللہ نے لکھا کہ ’کراچی کے کم ٹرن آوٹ والے الیکشن کو 24 گھنٹے سے اوپر ہوچکے نتائج مکمل جاری نہیں ہوسکے۔ الیکشن کمیشن پر 2018 میں بھی یہی الزامات تھے اب بھی ہیں۔ انتظامی کاریگری بھی خوب دکھائی گئی ہے کیونکہ متعدد نتائج کل کے فارم11/12 سے مطابقت نہیں رکھتے اس کے باوجود انتخابات کا ہونا خوش آئند ہے۔‘
ٹیلی ویژن میزبان حامد میر نے انتخابی نتائج پر تبصرہ میں لکھا کہ ’کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج میں اتنی تاخیر کے بعد کیا موجودہ الیکشن کمیشن سے یہ توقع رکھی جائے کہ یہ قومی سطح پر صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد کرا سکتا ہے؟‘

کراچی کے انتخابی نتائج پر احتجاج کا اعلان ہوا تو اس پر گفتگو کرنے والوں نے جہاں شہر کی بہتری کی خواہش ظاہر کی وہیں کئی ٹویپس نے اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھنے کا مشورہ دیا۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے جبران ناصر نے جہاں دعوی کیا کہ ’پیپلزپارٹی اختیار استعمال کر کے مینڈیٹ تباہ کر رہی ہے‘ وہیں ’حافظ نعیم الرحمن کے احتجاج کی حمایت‘ کا اعلان بھی کیا۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ بلدیاتی انتخابات کے مکمل نتائج کے مطابق کراچی میں پیپلزپارٹی نے 235 میں سے 93، جماعت اسلامی نے 86، پی ٹی آئی نے 40 اور مسلم لیگ نواز نے یونین کمیٹی کے چیئرمین،وائس چیئرمین کی سات نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

سوشل ٹائم لائنز نے تاخیر سے مکمل ہونے والے نتائج اور ان پر ہونے والے اعتراضات کی روشنی میں جہاں یہ خدشہ ظاہر کیا کہ اب معاملات انتخابی ٹربیونلز میں جائیں گے وہیں یہ نشاندہی بھی کی کہ کوئی جماعت میئر منتخب کرانے کے لیے سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکی ہے۔ اب میئر بنانے کے لیے جیتنے والی جماعتوں کو اتحاد کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔

شیئر: