Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ پر خریداری، کیا بینک ڈالر کا بلیک ریٹ چارج کر رہے ہیں؟

انٹربینک میں ڈالر ریٹ 228 روپے جبکہ اوپن مارکیٹ میں 236 ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں کمرشل بینکوں کی جانب سے حال ہی میں اعلان کیا گیا کہ کریڈٹ کارڈ پر بیرون ملک ادائیگیاں اب اوپن مارکیٹ ڈالر ریٹ پر ہوں گی تاہم پاکستان میں کئی صارفین نے شکایت کی ہے کہ پاکستانی بینک ان سے کارڈ کے ذریعے کی گئی انٹرنیشنل ٹرانزیکشن کے اوپن مارکیٹ ریٹ سے بھی زائد وصول کر رہے ہیں۔
دوسری طرف یہی کمرشل بینک بیرون ملک سے ڈالر میں آنے والی رقوم انٹربینک ریٹ یا اس سے بھی چھ سات روپے کم ریٹ کے حساب پر صارفین کو ادا کرتے ہیں، بلکہ اس پر اضافی فیس وغیرہ کی مد میں مزید کٹوتی بھی کی جاتی ہے۔
منگل کو ایوان بالا میں خطاب کرتے ہوئے سینیٹر دنیش کمار پالیانی نے بھی دعویٰ کیا کہ ان سے بین الاقوامی خریداری پر بینک نے بلیک مارکیٹ ریٹ وصول کیا ہے۔
 ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان میں انٹربینک میں ڈالر ریٹ 228 روپے ہے تو اوپن مارکیٹ میں 236 ہے مگر بلیک مارکیٹ میں 260 روپے میں ڈالر بیچا جاتا ہے۔
ان کے مطابق کچھ دن قبل وہ بیرون ملک تھے تو اپنے کارڈ پر کچھ خریداری کی جس کا بل وہاں 70 ہزار روپے دکھایا گیا مگر جب وہ پاکستان پہنچے تو کارڈ پر 89 ہزار چارج ہوچکے تھے۔
سینیٹر دنیش کمار نے بتایا کہ جب انہوں نے بینک کو فون کر کے پوچھا تو ای میل کے ذریعے جواب موصول ہوا کہ ’ہم انٹرنیشنل ٹرانزیکشن اوپن مارکیٹ سے ڈالر لے کر مکمل کرتے ہیں۔ اس طرح ڈالر میں کی گئی انٹرنیشنل ٹرانزیکشن کی پاکستانی روپے میں وصولی اوپن مارکیٹ کے ریٹ سے کی جائے گی۔‘
سنیٹر پالیانی نے کہا کہ ’سٹیٹ بینک نے بینکوں کو اختیار دے دیا ہے کہ بلیک مارکیٹ سے ڈالر خرید لیں۔ یہ پاکستانی عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے۔ وزیرخزانہ اس کا نوٹس لیں۔‘یاد رہے کہ چند دن قبل میزان بینک اور حبیب بینک کی جانب سے اعلان سامنے آیا تھا کہ کریڈٹ کارڈ پر بیرون ملک ادائیگیاں اب اوپن مارکیٹ ڈالر ریٹ پر ہوں گی۔ 
اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ کریڈٹ کارڈ پر بیرون ملک سے اشیا خریدنے پر تمام ادائیگیاں اوپن مارکیٹ ریٹ پر ہوں گی اور خریداری کے وقت جو بھی اوپن مارکیٹ میں ریٹ ہوگا وہی چارج کیا جائے گا۔

صارفین کے مطابق انٹرینشنل ٹرانزیکشن پر بینک اوپن مارکیٹ ریٹ سے زائد وصول کر رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر راولپنڈی کے ایک صنعت کار مسعود خان نے بتایا کہ اس وقت انہیں ڈالر کے دو تین مختلف ریٹس ملتے ہیں۔ ’ڈالر کا ایک ریٹ پڑوسی ملک سے ملتا ہے اور ایک پشاور سے جبکہ ایک کمرشل بینکوں سے ملتا ہے جس کی وجہ سے ملک میں ڈالر کی مزید قلت ہو رہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر ان تینوں کی جگہ پاکستان میں ڈالر کا ایک ریٹ یقینی بنایا جا سکے تو امریکی کرنسی کی قلت 30 فیصد تک کم ہو سکتی ہے۔
سٹیٹ بینک کا موقف
اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر سٹیٹ بینک کے ترجمان عابد قمر نے بتایا کہ بینکوں کی جانب سے اوپن مارکیٹ ریٹ پر ادائیگیوں کی وصولی نئی بات نہیں بلکہ گذشتہ پندرہ 20 سال سے یہ پریکٹس جاری ہے۔
’ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ ہمیشہ بین الاقوامی ٹرانزیکشن کے لیے صارفین سے اوپن مارکیٹ ریٹ کے حساب سے وصولی کرتے ہیں اور سٹیٹ بینک کی جانب سے ایسا کرنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بینک خود سے طے کرتے ہیں کہ ڈالر کا اوپن مارکیٹ ریٹ کیا ہے اور اسی کے مطابق صارف سے وصولی کرتے ہیں۔
اس سوال پر کہ کیا سٹیٹ بینک نے کوئی نیا ہدایت نامہ جاری کیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی ہدایت نامہ جاری نہیں ہوا مگر چونکہ اس وقت ڈالر کا انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ ریٹ خاصا مختلف ہو چکا ہے اس لیے کچھ دن قبل چند بینکوں نے عوامی آگاہی کے لیے پیغام جاری کیا تھا کہ وہ بین الاقوامی ادائیگیوں کے لیے اوپن مارکیٹ ریٹ کے حساب سے وصولی کریں گے۔

شیئر: