Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چوہدری برادران ایک مرتبہ پھر آمنے سامنے: کیا یہ نورا کشتی ہے؟

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ چوہدریوں کی سیاست ہمیشہ مصالحت کے گرد رہی ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے اندر رسہ کشی کا ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ تاہم گجرات کے چوہدریوں کی ق لیگ کے نام سے جانی جانے والی سیاسی پارٹی آج کل اندرونی اختلافات کے باعث پھر خبروں میں ہے۔
جمعرات کو دوسری مرتبہ چوہدری پرویزالہی نے پارٹی کے دفتر میں ایک مشاورتی اجلاس بلا کر ق لیگ کے صدر چوہدری شجاعت اور سیکرٹری جنرل طارق بشیر چیمہ کی جگہ چوہدری وجاہت کو پارٹی صدر اور سیکرٹری جنرل طارق بشیر چیمہ کی جگہ کامل علی آغا کو جماعت کا نیا سیکرٹری جنرل  مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
گذشتہ سال جولائی میں جب چوہدری پرویز الہی پنجاب کے وزیر اعلی بنے تو انہوں نے اس وقت ایک اجلاس بلا کر اپنی پارٹی کے صدرچوہدری شجاعت کو عہدے سے ہٹا دیا تھا۔
بعد ازاں الیکشن کمیشن نے ق لیگ کے صدر کو ہٹائےجانے کے فیصلے پر حکم امتناعی جاری کر دیا جو تاحال جاری ہے۔ اب یہ دوسری بار ہوا ہے کہ ایک اجلاس بلا کر چوہدری شجاعت کو صدارت سے ہٹایا گیا ہے۔
کامل علی آغا نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’آج پارٹی کا نیا الیکشن ہوا ہے۔ جو کہ کافی عرصے سے تاخیرکا شکار تھا۔ آج ملک بھر کی جنرل کونسل کا اجلاس بلایا گیا تھا جس میں دوہزار کے قریب عہدیدار شریک تھے۔ ان انتخابات کا پورا ریکارڈ مرتب کیا گیا ہے جو اب الیکشن کمیشن میں جمع کروایا جائے گا۔ پارٹی کے صدر اب چوہدری وجاہت حسین ہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ اس سے پہلے بھی ایک مرتبہ چوہدری شجاعت کا ہٹایا گیا تھا تو اب کیا فرق ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے پارٹی کی سی ڈبلیو سی نے ایک قرارداد کے ذریعے ہٹایا تھا۔ کیونکہ پارٹی یہ سمجھتی تھی کہ چوہدری شجاعت اب پارٹی چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ اس پر الیکشن کمیشن کا سٹے آرڈر ہے اب ہم نے ہٹایا نہیں صرف پارٹی کا الیکشن کرایا ہے اور یہ مکمل طور پر پارٹی آئین کے مطابق ہے۔ حکم امتناعی الیکشن پر نہیں تھا۔‘
دوسری طرف طارق بشیر چیمہ، جو کہ اپنے آپ کو پارٹی کا اب بھی جنرل سیکرٹری سمجھتے ہیں، نے بتایا کہ ’یہ سب فراڈ ہوا ہے جو بھی لاہور میں چوری چھپے کیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن نے ق لیگ کے صدر کو ہٹائےجانے کے فیصلے پر حکم امتناعی جاری کر دیا تھا۔ (فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر)

’جو لوگ بھی اس میں ملوث ہیں ان کے خلاف پارٹی کارروائی کرے گی۔ اجلاس سیکرٹری جنرل نے بلانا ہوتا ہے۔ الیکشن بھی سیکرٹری نے کال کرنا ہوتا ہے۔ یہ جو کچھ بھی ہوا ہے سب غیر قانونی ہے۔‘
چوہدری برادران کے درمیان اختلافات گذشتہ برس اس وقت سامنے آئے جب چوہدری پرویز الہی نے پی ڈی ایم کے ساتھ متوقع الحاق چھوڑ کر تحریک انصاف کے وزیر اعلی کے امیدوار کے طور پر سامنے آگئے۔ چوہدری شجاعت کے بیٹے چوہدری سالک البتہ پی ڈٰی ایم میں حکومت میں وزیر بن گئے۔
ایسی اطلاعات بھی آتی رہیں کہ چوہدریوں کے خاندان میں تاریخ میں پہلی مرتبہ چوہدری شجاعت اور پرویز الہی کی راہیں جدا ہو گئی ہیں۔ لیکن جب پرویز الہی وزیر اعلی بن گئے تو پھر ایک دوسرے کے بارے میں خیر سگالی کے پیغامات خبروں کی زینت بنتے رہے۔ ایسے میں یہ قیاس آرائیاں جنم لیتی رہیں کہ یہ لڑائی محظ ’نورا کشتی ‘ ہے۔
ان قیاس آرائیوں کو کبھی بھی رد نہیں کیا گیا۔ ق لیگ کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی لیاقت انصاری کہتے ہیں کہ ’عملی طور پر پرویز الہی نے پارٹی ہائی جیک کر لی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ یہ کوئی نورا کشتی ہے۔ چوہدری شجاعت تو صرف علامتی سربراہ ہیں۔ آج وہ پرویز الہی کی ہاں میں ہاں ملا دیں تو لڑائی ختم ہو جائے گی۔ جتنا میں چوہدریوں کو جانتا ہوں میرا نہیں خیال کہ یہ سب منصوبہ بندی کے تحت ہورہا ہے۔ یہ پارٹی کے اندر اقتدار کی پوری جنگ ہے۔‘
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ چوہدریوں کی سیاست ہمیشہ مصالحت کے گرد رہی ہے اس لیے اب بھی اس بات کے چانسز ہیں کہ اگر ان کے مفادات اکھٹے ہو گئے تو یہ لڑائی ختم ہو جائے گی۔

شیئر: