Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہماری حکومت میں مذاکرات کی وجہ سے 9 سال تک امن رہا، سابق گورنر خیبر پختونخوا

خیبر پختونخوا کے سابق گورنر شاہ فرمان نے دعویٰ کیا ہے کہ شدت پسند عناصر سے مذاکرات کا فائدہ یہ ہوا تھا کہ ان کے دور حکومت میں امن قائم رہا۔
جمعے کو اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سابق گورنر شاہ فرمان نے کہا کہ ’ہماری پالیسی تھی کہ بات چیت کے ذریعے امن قائم کیا جائے۔ اس لیے ہم نے ایسے عناصر کو مذاکرات کی پیشکش کی اور اسی وجہ سے پچھلے نو سال تک اس صوبے میں امن قائم رہا۔‘
خیبرپختونخوا میں ایک بار پھر دہشت گردی سر اٹھا رہی ہے۔ قبائلی اور جنوبی اضلاع کے بعد اس بار صوبے کے مرکز پشاور میں ایک اندوہناک دھماکہ ہوا جس میں سو سے زیادہ اموات ہوئیں۔
صوبے میں دہشت گردی کے مسلسل واقعات کے بعد وفاقی حکومت نے  تحریک انصاف پر شدت پسند گروپوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے کا الزام عائد کیا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے کے بعد ان سے بات چیت شروع کی۔
شاہ فرمان کا کہنا تھا کہ ’دیر پا امن صرف اسی وجہ سے قائم ہوگا جب ایسے لوگوں کے مسائل کو سنا جائے اور حل کیا جائے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ہم نے بات چیت کا طریقہ اختیار کیا ہوا تھا جس کا اب نتیجہ نکلنا تھا کہ ہماری حکومت ختم ہوگئی۔‘

کیا دوبارہ دہشت گرد تنظیموں سے مذاکرات ہونے چاہیے؟

سابق گورنر شاہ فرمان کا کہنا ہے کہ ان کے دور حکومت میں شدت پسندوں سے بات چیت ہوئی تھی جس کا بہت فائدہ ہوا تھا۔
’جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ موجودہ صورتحال میں اس پر کچھ کہنا قبل ازقت ہے مگر اس پر سب سے مشاورت ہونی چاہیے۔‘

دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سابق گورنر خیبرپختونخوا کا کہنا تھا ’شدت پسند عناصر کے ساتھ بات چیت کرکے ان لوگوں کو سیٹلمینٹ کرنے میں بھی مقامی طور پر مشکلات کا سامنا رہا، لیکن ہماری حکومت نے غیر ملکی ایجنڈے کے برعکس  ان سے مذاکرات کیے۔ ہم نے خواہ مخواہ ایسے لوگوں کو نہیں مارنا۔‘
بین الاقوامی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر حسین شہید سہروردی کا کہنا ہے کہ بہت سے بیانات صرف بیان کی حد تک درست ہوتے ہیں۔ 
’اگر مذاکرات کا فائدہ ہوتا تو پشاور جیسے بڑے واقعات نہ ہوتے بلکہ گزشتہ کئ مہینوں سے قبائلی اضلاع میں  دہشت گردی کے واقعات رونما ہورہے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردی کو ختم کرنا تو دور کی بات یہ لوگ اس کرائسز کو مینج ہی نہیں کر پائے۔‘
پروفیسر ڈاکٹر حسین سہروردی شہید نے موقف اپنایا کہ مذاکراتی عمل بری طرح ناکام ہوا ہے کیونکہ کالعدم ٹی ٹی پی بھی نتیجہ خیز مذاکرات نہیں کرنا چاہتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس وقت افغان حکومت سے بات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ  ٹی ٹی پی کو پناہ نہ دیں یا پھر ٹی ٹی پی کو حملے کرنے سے روکیں۔‘

آئی جی معظم جاہ انصاری نے کہا تھا کہ پولیس لائن دھماکے کا خودکش حملہ آور پولیس کی وردی میں تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تجزیہ کار عقیل یوسفزئی نے سابق گورنر شاہ فرمان کے بیان کو مضحکہ خیز قرار دیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’دہشت گردی کے زیادہ واقعات تو پی ٹی آئی کے ہی دور حکومت میں ہی ہوئے جن میں اے پی ایس ،چرچ اور مساجد پر جیسے بڑے  حملے شامل ہیں۔‘
 انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال سوات میں طالبان کی واپسی ایک پولیس ڈی ایس پی اور سکیورٹی اہلکار کے اغوا سے ہوئی جبکہ ضم شدہ قبائلی اضلاع بھی بدامنی کی لپیٹ میں رہے۔
انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ایک سال سے کم عرصے میں 129 حملوں میں صرف پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا جبکہ مجموعی طور پر شدت پسندوں کی جانب سے 260 چھوٹی بڑی کارروائیاں کی گئیں۔

شیئر: