خیبر پختونخوا کے سابق گورنر شاہ فرمان نے دعویٰ کیا ہے کہ شدت پسند عناصر سے مذاکرات کا فائدہ یہ ہوا تھا کہ ان کے دور حکومت میں امن قائم رہا۔
جمعے کو اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سابق گورنر شاہ فرمان نے کہا کہ ’ہماری پالیسی تھی کہ بات چیت کے ذریعے امن قائم کیا جائے۔ اس لیے ہم نے ایسے عناصر کو مذاکرات کی پیشکش کی اور اسی وجہ سے پچھلے نو سال تک اس صوبے میں امن قائم رہا۔‘
خیبرپختونخوا میں ایک بار پھر دہشت گردی سر اٹھا رہی ہے۔ قبائلی اور جنوبی اضلاع کے بعد اس بار صوبے کے مرکز پشاور میں ایک اندوہناک دھماکہ ہوا جس میں سو سے زیادہ اموات ہوئیں۔
مزید پڑھیں
-
پشاور دھماکے میں اموات کی تعداد 101 ہو گئیNode ID: 739451
-
پشاور دھماکے کے ذمہ داروں کا تعین نہ ہوسکا، پولیس کا احتجاجNode ID: 739541
-
پشاور دھماکہ: پولیس لائنز سے 23 مشتبہ افراد گرفتار، تفتیش جاریNode ID: 739651
صوبے میں دہشت گردی کے مسلسل واقعات کے بعد وفاقی حکومت نے تحریک انصاف پر شدت پسند گروپوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے کا الزام عائد کیا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے کے بعد ان سے بات چیت شروع کی۔
شاہ فرمان کا کہنا تھا کہ ’دیر پا امن صرف اسی وجہ سے قائم ہوگا جب ایسے لوگوں کے مسائل کو سنا جائے اور حل کیا جائے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے بات چیت کا طریقہ اختیار کیا ہوا تھا جس کا اب نتیجہ نکلنا تھا کہ ہماری حکومت ختم ہوگئی۔‘
کیا دوبارہ دہشت گرد تنظیموں سے مذاکرات ہونے چاہیے؟
سابق گورنر شاہ فرمان کا کہنا ہے کہ ان کے دور حکومت میں شدت پسندوں سے بات چیت ہوئی تھی جس کا بہت فائدہ ہوا تھا۔
’جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ موجودہ صورتحال میں اس پر کچھ کہنا قبل ازقت ہے مگر اس پر سب سے مشاورت ہونی چاہیے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/February/36481/2023/000_338e2da.jpg)
سابق گورنر خیبرپختونخوا کا کہنا تھا ’شدت پسند عناصر کے ساتھ بات چیت کرکے ان لوگوں کو سیٹلمینٹ کرنے میں بھی مقامی طور پر مشکلات کا سامنا رہا، لیکن ہماری حکومت نے غیر ملکی ایجنڈے کے برعکس ان سے مذاکرات کیے۔ ہم نے خواہ مخواہ ایسے لوگوں کو نہیں مارنا۔‘
بین الاقوامی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر حسین شہید سہروردی کا کہنا ہے کہ بہت سے بیانات صرف بیان کی حد تک درست ہوتے ہیں۔
’اگر مذاکرات کا فائدہ ہوتا تو پشاور جیسے بڑے واقعات نہ ہوتے بلکہ گزشتہ کئ مہینوں سے قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہورہے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردی کو ختم کرنا تو دور کی بات یہ لوگ اس کرائسز کو مینج ہی نہیں کر پائے۔‘
پروفیسر ڈاکٹر حسین سہروردی شہید نے موقف اپنایا کہ مذاکراتی عمل بری طرح ناکام ہوا ہے کیونکہ کالعدم ٹی ٹی پی بھی نتیجہ خیز مذاکرات نہیں کرنا چاہتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس وقت افغان حکومت سے بات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ٹی ٹی پی کو پناہ نہ دیں یا پھر ٹی ٹی پی کو حملے کرنے سے روکیں۔‘
![](/sites/default/files/pictures/February/36481/2023/000_338d7wp.jpg)