Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنگلہ دیش موخر ادائیگی پر سعودی عرب سے تیل کیوں مانگ رہا ہے؟

بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ نے ڈھاکا میں سعودی سفیر سے ملاقات کی ہے( فوٹو عرب نیوز)
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے پیکج حاصل کرنے کے بعد بنگلہ دیش نے اس ہفتے سعودی عرب سے تیل کی سپلائی پر قرضے کی توسیع کی درخواست کی ہے جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے بنگلہ دیش کی معیشت کو پٹری پر لانے میں مزید مدد ملے گی۔
عرب نیوز کے مطابق بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ اے کے عبدالمومن نے اس ہفتے ڈھاکا میں ریاض کے سفیر عیسیٰ الدحیلان سے ملاقات کی تھی۔
بنگلہ دیش نے مملکت سے کہا ہے کہ وہ ’موخر ادائیگی کی بنیاد پر‘ خام اور صاف شدہ تیل کی فراہمی پرغور کرے تاکہ بنگلہ دیش کو توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں مدد ملے۔
یہ درخواست آئی ایم ایف کی جانب سے بنگلہ دیش کے لیے 4.7 بلین ڈالر کے قرض کی منظوری کے فوراً بعد سامنے آئی ہے۔
سینٹرفار پالیسی ڈائیلاگ ان ڈھاکا کے ممتاز فیلو پروفیسر مستفیض الرحمن نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’ بنگلہ دیش اس وقت غیر ملکی زرمبادلہ کے محدود ذخائر کے دور سے گزر رہا ہے اور اسے ایل سی (لیٹرز آف کریڈٹ) کھولنے اور ہماری درآمدات کی ادائیگی کے معاملے میں بھی دشواری کا سامنا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ اگر ہم موخر ادائیگی کی بنیاد پر سعودی تیل حاصل کر سکتے ہیں تو اس سے بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر میں آسانی ہو گی اور بنگلہ دیش کو دیگر ضروری درآمدات کی خریداری میں مدد ملے گی جس کے لیے فوری ادائیگی کی ضرورت ہے‘۔
بنگلہ دیش کے لیے 30 جنوری کو آئی ایم ایف کی توسیع شدہ کریڈٹ سہولت اور توسیعی فنڈ سہولت پیکیج کی منظوری سے سعودی عرب سمیت اس کے قرض دہندگان کے درمیان بنگلہ دیش کے نقطہ نظر کو فروغ ملے گا اور اس کی واپسی کی صلاحیت کا مظاہرہ ہو گا۔
دیگر علاقائی ممالک کے برعکس بنگلہ دیش نے آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ قرض کے لیے نہیں کہا ہے۔
بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ اے کے عبدالمومن نے کہا کہ ’ آئی ایم ایف کی 4.7 بلین ڈالر کی گرانٹ ہمارے ترقیاتی شراکت داروں کو مثبت اشارے فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہو گی کہ ہماری معیشت کے بنیادی اصول مضبوط ہیں اور یہ کہ بنگلہ دیش بھی اصلاحات کے لیے تیار ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ اس نقطہ نظر سے یہ سعودی عرب کو پیش کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو گا کہ جب ہم موخر ادائیگی کے لیے کہہ رہے ہیں۔ بنگلہ دیشی معیشت غیر ملکی ذخائر کو برقرار رکھنے کے قابل ہو جائے گی اور جب بات چیت کا وقت آئے گا ہم ادائیگی کر سکیں گے‘۔
بنگلہ دیش جو درآمد شدہ مائع قدرتی گیس پر منحصر ہے حالیہ مہینوں میں توانائی کے بحران سے نبرد آزما ہے۔
گذشتہ سال جولائی کے وسط سے یوکرین اور روس کی جنگ کے باعث بلند عالمی قیمتوں کے درمیان بنگلہ دیش کی حکومت روزانہ بجلی کی کٹوتی کا سہارا لے رہی ہے۔
بنگلہ دیش کی جن صنعتوں کو اپنے آپریشنز  چلانے کے لیے کافی بجلی نہیں ملتی وہ دن میں کئی کئی گھنٹے بیکار رہنے پر مجبور ہیں۔
گذشتہ سال اکتوبر کے اوائل میں بنگلہ دیش کے 168 ملین افراد میں سے تقریباً 80 فیصد بجلی کے بغیر تھے کیونکہ گیس سے چلنے والے ایک تہائی یونٹوں میں ایندھن کی قلت کی وجہ سے گرڈ کی خرابی تھی۔
واضح رہے کہ سعودی عرب بنگلہ دیش کی خام درآمدات کا نصف سے زیادہ سپلائی کرتا ہے۔
بنگلہ دیش یونیورسٹی آف انجینئرنگ میں کیمیکل اور میٹریل انجینئرنگ کے ڈین پروفیسر محمد تمیم نے کہا کہ ’ہم تیل لا رہے ہیں جو ہماری معمول کی درآمد ہے کیونکہ ہمارا ٹرانسپورٹ کا شعبہ مکمل طور پر اس تیل پر منحصر ہے اور جزوی طور پر ہماری پیداوار بھی‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ بنگلہ دیس پر توانائی کی مصنوعات کی درآمد کے حوالے سے بہت دباؤ ہے اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم تیل کی سپلائی جاری رکھیں تاکہ معاشی سرگرمیوں میں کوئی رکاوٹ نہ آئے‘۔

شیئر: