Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیشتر شہروں میں پیٹرول و ڈیزل کی پھر قلت، ’آئل کمپنیوں سے جواب طلب کریں‘ 

چھوٹے شہروں اور دور دراز اضلاع میں پیٹرول اور ڈیزل فراہم نہیں کیا جا رہا۔ فوٹو: اے ایف پی
’دو مہینے ہوگئے ہیں کہ آئل کمپنیاں پیٹرول پمپوں کو تیل کی فراہمی میں ٹال مٹول سے کام لے رہی ہیں۔ بڑے شہروں کو سپلائی دے رہے ہیں تاکہ میڈیا میں خبریں نہ آئیں۔  ہمیں کہا جاتا ہے کہ سپلائی نہیں دے سکتے آپ چاہیں تو ہم پر مقدمہ کر لیں۔‘  
یہ کہنا ہے جڑانوالہ سے تعلق رکھنے والے حافظ شعیب کا جو ایک پیٹرول پمپ کے مالک ہیں۔
اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر انہوں نے کہا کہ پیٹرول پمپ مالکان کے پاس اتنا بڑا ذخیرہ نہیں ہوتا کہ وہ کئی دنوں تک پیٹرول نہ بیچ کر موجودہ ذخیرے سے بہت زیادہ منافع کما سکیں۔ 
گزشتہ ہفتے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بڑے اضافے کے باوجود ایک بار پھر ملک کے بیشتر علاقوں بالخصوص چھوٹے شہروں اور دور دراز اضلاع میں پیٹرول اور ڈیزل کی فراہمی کا سلسلہ بند ہو گیا ہے۔  
اس حوالے سے نارروال سے تعلق رکھنے والے ایک صارف محمد اجمل نے اردو نیوز کو بتایا کہ شہر میں پیٹرول پمپوں کے مالکان نے تیل کی فراہمی بند کر دی ہے۔  
ایک اور صارف علی مغل کا کہنا تھا کہ ’ساہیوال، پاکپتن، اوکاڑہ، وہاڑی اور دیگر شہروں میں بھی پیٹرول پمپ بند ہیں۔ صرف پی ایس او دو تین لیٹر تیل دے رہا تھا۔ تمام لوگوں کا رخ اس طرف ہونے سے ان کے پاس بھی پٹرول ختم ہو گیا ہے۔‘  
پیٹرول پمپ کے مالک حافظ شعیب نے کہا کہ وہ خود پریشان ہیں، شہر میں پی ایس او (پاکستان سٹیٹ آئل) سمیت کوئی بھی کمپنی پیٹرول فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
’ہم کتنا کچھ ذخیرہ کر سکتے ہیں۔ ملک میں کسی بھی ہنگامی صورت حال میں سٹاک برقرار رکھنا آئل کمپنیوں کی ذمہ داری ہے اور اگر اس میں حکومت کسی کوتاہی کی مرتکب ہو رہی ہے تو بھی کمپنیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو سامنے لائیں۔‘  

حال ہی میں اضافے کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 249.80 کی گئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے کہا کہ ’ہم جب تک کام چلا سکتے ہیں چلا رہے ہیں۔ گالیاں بھی کھاتے ہیں اور پیٹرول و ڈیزل بھی دیتے ہیں لیکن اب ہم خود ڈرائی ہو کر بیٹھے ہیں۔ اوگرا کو چاہیے کہ وہ آئل کمپنیوں سے جواب طلبی کرے۔‘ 
دوسری جانب آئل کمپنیوں کا موقف ہے کہ روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر کی قیمت اوپر جانے سے آئل کمپنیوں کو شدید نقصان کا سامنا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ خسارہ صارفین سے وصول کرنے کی اجازت دی جائے۔  
آئل کمپنیوں کی ایڈوائزی کونسل کے سیکرٹری جنرل سید نذیر عباس زیدی نے کہا کہ اس سلسلے میں حکومت کو خط لکھا ہے کہ زرمبادلہ کے بحران اور روپے کی قدر میں غیر معمولی کمی نے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، کمپنیوں کو روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ کی وجہ سے سرمائے کی قلت کا سامنا ہے جس سے آئل سیکٹر کا کاروبار خطرے میں پڑگیا اور ریفائنریز بھی متاثر ہونے لگیں۔ 
’پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین میں اوگرا شرح مبادلہ کے فرق کو مکمل طور پر صارفین پر منتقل کرنے سے اجتناب کرتی ہے اور اس فرق کا بوجھ آئل سیکٹر پر ڈالا جاتا ہے۔ آئل سیکٹر پہلے ہی شرح مبادلہ کے دھچکے کو برداشت نہیں کرسکا اور اب ایک اور بڑے دھچکے کا سامنا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اوگرا شرح مبادلہ کے فرق کو قیمتوں میں ایک وقت میں مکمل منتقل کرے۔‘  
اس معاملے پر اوگرا کے ترجمان عمران غزنوی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ملک میں تیل کے مطلوبہ ذکائر موجود ہیں اور کمپنیوں کے مطالبے پر ایل سیز بھی کھولی جا رہی ہیں جس کے بعد مزید تیل بھی منگوایا جا رہا ہے، اس لیے قلت کا کوئی خدشہ نہیں ہے۔  
انہوں نے کہا کہ ’ہماری ٹیمیں اس وقت فیلڈ میں ہیں اور جہاں کہیں بھی مسئلہ ہے اس کو دیکھا جا رہا ہے اور اگر کسی نے غفلت برتی اور جان بوجھ کر تیل فراہم نہ کیا تو اس کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ کسی پٹرول پمپ مالک کو کمپنیوں کی جانب سے تیل فراہمی سے انکار کیا جا رہا ہے تو وہ اوگرا کے پاس باضابطہ شکایت کریں اور ثبوت فراہم کریں تو اوگرا ایسی کمپنیوں کے خلاف ایکشن لے گا۔‘  

پیٹرول پمپ مالکان کے مطابق بڑے شہروں کو تیل کی سپلائی جاری ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ملک میں جاری پیٹرول بحران پر سابق بیوروکریٹ حسن بیگ نے کہا کہ ’اس صورت حال کی بنیادی وجہ تو ملکی معاشی حالات ہیں۔ ہمارے پاس ڈالر ہی اس مقدار میں ہیں کہ 18، 20 دن کے تیل کی درآمد کے لیے زرمبادلہ موجود ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط بھی سخت سے سخت ہوتی جا رہی ہیں۔ مالیاتی خسارے کے باعث پٹرولیم لیوی بھی بڑھانے کا خدشہ ہے۔ اس لیے آنے والے دنوں میں تیل کی دستیابی مسئلہ ہوگی تو اس وجہ سے کمپنیاں ذخیرہ اندوزی کرکے منافع کماتی ہیں۔‘  
انھوں نے کہا کہ ’اوگرا کا کردار یہاں بہت اہم ہوتا ہے لیکن اوگرا کے پاس وہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ اس ذخیرہ اندوزی کے خلاف کوئی بڑی کارروائی کرسکے۔ وہ اگر کسی کو چار کروڑ جرمانہ بھی کرتے ہیں تو جتنی ذخیرہ اندوزی کر لی ہوتی ہے وہ اس سے پندرہ سے بیس کروڑ کما چکے ہوتے ہیں اور انہیں یہ جرمانہ دینے میں کوئی دقت نہیں ہوتی۔‘  

شیئر: