Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’انٹرویو کے دن اُس کا جنازہ پڑھ رہے ہیں‘، نیویارک میں پاکستانی نژاد پولیس افسر کا قتل

عدید کے کمانڈنگ آفیسر جیسن ہیگسٹڈ نے ان کے پروفیشنل رویے کی تعریف کرتے ہوئے انہیں ہونہار اور مستعد پولیس آفیسر قرار دیا۔ (فوٹو: ٹوئٹر، میئر ایرک ایڈمز)
سنیچر کو نیویارک پولیس کے آفیسر عدید فیاض اپنے آف ڈیوٹی اوقات میں گاڑی خریدنے کے لیےشہر کے مشرقی حصے میں طے شدہ مقام پر پہنچے۔
عدید نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک کی مارکیٹ پلیس پر ایک گاڑی کا اشتہار دیکھا تھا۔ 38 سالہ رینڈی جونز نے 24 ہزار ڈالرز کے عوض گاڑی فروخت کرنے کے لیے عدید سے جمعے کے روز ملاقات طے کی۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق عدید جمعے کے روز مصروفیت کے باعث نہ جا سکے۔
سینچر کی شام جب عدید اپنے بہنوئی کے ہمراہ رینڈی جونز سے ملے تو ملزم نے  پوچھا ’ان کے پاس اسلحہ تو نہیں‘۔  جب انہوں نے نفی میں جواب دیا تو ملزم نے اسلحہ نکال لیا۔ اسلحے کے بَل پر ملزم نے مقتول عدید کی گردن کے گرد بازو ڈال کر انہیں قابو کیا اور رقم کا مطالبہ کرنے لگا۔
اسی اثناء میں ملزم نے گن کا رُخ ساتھ کھڑے ان کے بہنوئی کی طرف کرتے ہوئے لگ بھگ 20 ہزار ڈالرز دینے کو کہا تو عدید نے خود کو چھڑانے کی کوشش کی۔
 38 سالہ رینڈی نے فائر کیا اور گولی عدید کے سر میں جا لگی۔ عدید کے بہنوئی نے اُس کی گن نکال کر ملزم پر جوابی فائر کیے۔ مگر وہ بچ نکلا اور گاڑی میں بیٹھ کر فرار ہو گیا۔
عدید کو بروکلین ، نیویارک کے ہسپتال میں داخل کرایا گیا جہاں وہ 3 دن تک موت اور حیات کی کشمکش میں مبتلا رہے۔ منگل کے روز بالآخر عدید زندگی کی جنگ ہار گئے۔
ان کے پسماندگان میں والدین، بیوہ اور 2 بچے شامل ہیں۔
نیویارک پولیس نے دیگر اداروں کے تعاون سے ملزم کو واقعے کے 48 گھنٹوں کے اندر گرفتار کر لیا۔ اس موقع پر ملزم ریڈی جونز کو گرفتار کر کے وہی ہتھکڑیاں لگائیں گئیں جو عدید کے پاس ہوتی تھیں۔
نیویارک پولیس نے روایتی انداز میں ان کے جنازے کو سلامی پیش کی۔
رُندھے ہوئے لہجے میں آنے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے عدید کے والد کا کہنا تھا ’بچپن میں جب عدید نے بولنا شروع کیا تو رشتے دار کہتے تھے کہ یہ ہمارے گھر میں ہونا چاہیے۔ گھر کے سارے کام کرتا تھا اور سبھی اس سے بہت خوش تھے۔‘
’بیٹے اپنے باپ کو کندھا دیتے مگر آج مجھے اپنے بیٹے کو کندھا دینا پڑ رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں کسی اور باپ کو یہ دن نہ دیکھنا پڑیں‘۔

عدید کے پسماندگان میں والدین، بیوہ اور 2 بچے شامل ہیں (فوٹو: نیو یارک پولیس)

26 سالہ عدید فیاض گزشتہ پانچ برس سے نیویارک پولیس سے وابستہ تھے۔
نیویارک پولیس کمشنر نے بتایا کہ عدید 5 برس کی عمر میں پاکستان سے امریکا منتقل ہوئے۔ اپنے 2 قریبی رشتے داروں کو پولیس سروس کا حصہ بنتے دیکھ کر انہوں نے سکول کے دوران طے کر لیا کہ وہ پولیس یونیفارم پہنیں گے۔
آخری رسومات کے موقع پر عدید کے چچا مہران فیاض نے کہا ’میں نے اور عدید نے سارجنٹ کی پروموشن کے لیے اکٹھے ٹیسٹ دیا تھا۔ لوگ مجھے تنگ کرتے تھے کہ تم نے اس کے لیے ٹھیک سے پڑھائی نہیں کی۔ تمہارا بھتیجا سارجنٹ بن جائے گا اور تم یہیں  رہ جاؤ گے۔ یہ بات درست تھی کیونکہ میں نے ٹیسٹ فیل کر دیا تھا اور میرے بیٹے(بھتیجے) نے پاس کر لیا تھا۔‘

نیویارک پولیس کمشنر نے بتایا کہ عدید 5 برس کی عمر میں پاکستان سے امریکا منتقل ہوئے (فوٹو: ٹوئٹر، میئر ایرک ایڈمز)

’میں اس کے گھر ملنے کے لیے گیا تو اس نے کھانے پر بتایا کہ جمعرات کو اس کا ایوی ایشن کے لیے انٹرویو ہے اور اس کے لیے اس نے 10 کلو وزن بھی کم کر لیا ہے۔ لیکن کسے معلوم تھا کہ اس کے انٹرویو کے دن میں اس کے جنازے پر کھڑا ہو کر آپ سے بات کر رہا ہوں گا۔‘
عدید کے کمانڈنگ آفیسر جیسن ہیگسٹڈ نے ان کے پروفیشنل رویے کی تعریف کرتے ہوئے انہیں ہونہار اور مستعد پولیس آفیسر قرار دیا۔
نیویارک پولیس کمشنر کیشانت سیول نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’ہم ایک باپ، شوہر، بیٹے اور محافظ سے محروم ہو گئے ہیں۔‘
نیویارک کے مئیر ایریک ایڈمز نے اپنے پیغام میں کہا کہ ’آفیسر عدید نے تحفظ کا عہد کیا تھا۔ آئیے ان  تکلیف دہ لمحات کو بامقصد بنائیں۔‘

 

شیئر: