Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ازخود نوٹس، انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار وضاحت طلب ہے: سپریم کورٹ

چیف جسٹس نے کہا کہ ’جسٹس جمال مندوخیل کے تحفظات کو عدالتی حکم کا حصہ بنایا جائے گا‘ (فوٹو: اے پی پی)
سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ ہونے سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں صدر، گورنرز، وفاق، صوبائی حکومتوں اور الیکشن کمیشن سمیت متعلقہ اداروں کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔  
سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ’سپریم کورٹ کسی صورت آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی۔ انتہائی غیرمعمولی حالات ہوں تو انتخابات میں تاخیر ہوسکتی ہے، بصورت دیگر 90 روز میں الیکشن آئینی طور پر ناگزیر ہیں۔‘
جمعرات کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس  عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے نو رکنی لارجر بنچ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی۔
لارجر بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔

انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار وضاحت طلب ہے: چیف جسٹس

سپریم کورٹ میں سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’پنجاب اور کے پی اسمبلیاں 14 اور18 جنوری کو تحلیل ہوئیں۔ آرٹیکل 224/2 کے تحت الیکشن اسمبلی کی تحلیل سے 90 دنوں میں منعقد کرانا ہوتے ہیں۔ آرٹیکل 224 ایک ٹائم فریم دیتا ہے۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت نے تین معاملات کو سُننا ہے۔ صدر پاکستان نے سیکشن 57 کے تحت صدر نے انتخابات کا اعلان کیا ہے اور تاریخ دیتے وقت آئین کا سہارا نہیں لیا جس کی وجہ سے ان کا فیصلہ بھی زیر بحث ہے۔ 
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ’انتحابات کا مسئلہ وضاحت طلب ہے۔ ہم ارادہ رکھتے ہیں کہ آپ سب کو سُنیں گے لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے سماعت طویل نہیں کریں گے۔‘

از خود نوٹس اور بینچ میں شامل ججز پر جسٹس جمال مندوخیل کے تحفظات

دورانِ سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’یہ از خود نوٹس کیس نہیں بنتا۔ میرے اس پر تحفظات ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سی سی پی او لاہور غلام محد ڈوگر کی اپنے عہدے پر بحالی کی درخواست کے دوران انتخابات کے حوالے سے کارروائی کی۔‘
جسٹس جمال مندوخیل کے بقول ’انھوں نے اس کیس میں چیف الیکشن کمشنر کو بھی طلب کیا جو اس کیس میں فریق ہی نہیں تھے۔ ان کے نوٹ پر یہ از خود نوٹس لیا گیا ہے۔ ہمارے سامنے دو درخواستیں موجود تھیں۔ بہتر ہوتا کہ ان پر سماعت کی جاتی۔‘ 

چیف جسٹس نے کہا کہ ’20 فروری کو صدر کے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد صورتحال بدل گئی‘ (فوٹو: اے پی پی)

چیف جسٹس نے کہا کہ ’جسٹس جمال مندوخیل کے تحفظات کو عدالتی حکم کا حصہ بنایا جائے گا۔‘  
انھوں نے ریمارکس دیے کہ ’ہمارے سامنے دونوں صوبائی اسمبلیوں کے سپیکرز اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی آئینی درخواستیں تھیں۔ ہم ان کو سماعت کے لیے مقرر کر سکتے تھے۔ لیکن معاملے کی نوعیت، وقت کی کمی، لاہور ہائی کورٹ میں معاملے میں ایک ہفتے کے التوا اور صدر اور الیکشن کمیشن کے درمیان ہونے والی خط و کتابت اور صدر کی جانب سے تاریخ دینے کے بعد از خود نوٹس لینے کا فیصلہ کیا۔‘  
جسٹس جمال جان مندوخیل نے کہا کہ ’کچھ آڈیو سامنے آئی ہیں جس میں عابد زبیری کچھ ججز کے حوالے سے بات کر رہے ہیں ان حالات میں میری رائے میں یہ کیس 184(3) کا نہیں بنتا۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’20 فروری کو صدر کے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد صورتحال بدل گئی۔ کچھ سوال دونوں اسمبلی کے سپیکرز نے اپنی درخواستوں میں شامل کیے ہیں۔ سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عمل درآمد کرانا ہے۔ ہم نے آئندہ ہفتے کا شیڈول منسوخ کیا ہے تاکہ یہ کیس چلا سکیں۔‘

’ممکن ہے عدالت اس نتیجے پر پہنچے کہ اسمبلی غلط توڑی گئی‘

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’ہم اس کیس میں آئینی شک پر بات کر رہے ہیں۔‘ انھوں نے سوال اُٹھایا کہ اسمبلی توڑنے اختیار کے استعمال کا جائزہ بھی لینا چاہیے۔ کیا وزیراعلٰی سیاسی رہنما کی ہدایت پر اسمبلی توڑ سکتے ہیں؟ عوام نے نمائندوں کو پانچ سال کا مینڈیٹ دیا تھا۔ دیکھنا ہوگا کہ وزیراعلٰی نے اسمبلی توڑنے کے اختیار کا استعمال درست کیا؟‘
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ ’ممکن ہے عدالت ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اسمبلی غلط توڑی گئی۔ ممکن ہے اسمبلی توڑنے کے اختیار کے غلط استعمال کے نتیجے پر پہنچنے سے اسمبلی بحال ہو جائے۔ اسمبلی کی بحالی کے فیصلے سے ممکن ہے یہ کرائسز ختم ہوجائے۔‘

عدالتی حکم نامہ اور نوٹسز جاری  

سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس نے عدالتی حکم لکھوایا۔ عدالت نے کہا کہ ’ہمارے سامنے دو درخواستیں دائر ہوئیں جن میں انتخابات کی تاریخ کے اعلان کی ناکامی کا کہا گیا۔ سپیکرز کی درخواست دائر ہونے سے پہلے صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کے درمیان خط و کتابت ہوئی۔ 20 فروری کو صدر مملکت نے انتخابات کے لیے نو اپریل کی تاریخ دی۔‘

عدالت نے چیف سیکرٹریز کے ذریعے دونوں صوبائی حکومتوں اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر دیے (فوٹو: اے ایف پی)

عدالت نے کہا کہ اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو گورنر کی مشاورت سے تاریخ دینے کا کہا۔ ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف الیکشن کمیشن اور گورنر نے اپیلیں دائر کیں۔ پشاور ہائیکورٹ میں بھی یہی مقدمہ 28 فروری کو سُنا جائے گا۔ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے چھ ہفتے بعد بھی انتخابات کی تاریخ کا معاملہ عدالتوں میں زیر التواء ہے جبکہ آئین 90 دنوں میں الیکشن کا کہتا ہے۔ 
حکم کے مطابق 22 فروری کو بینچ کی درخواست پر ازخود نوٹس کا اختیار استعمال کیا جس میں تین سوالات کا تعین کیا جائے گا۔ عدالت نے اٹارنی جنرل پاکستان، ایڈووکیٹ جنرلز کو 27-A کے نوٹسز جاری کر دیے۔ 
عدالت نے پرنسپل سیکرٹری کے ذریعے صدر اور گورنرز کابینہ ڈویژن کے ذریعے وفاقی حکومت، چیف سیکرٹریز کے ذریعے دونوں صوبائی حکومتوں اور الیکشن کمیشن کو بھی نوٹس جاری کر دیے۔  
عدالت نے معاونت کے لیے پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کو بھی نوٹس جاری کیا۔  
اٹارنی جنرل نے تجویز دی کہ تمام پارلیمانی سیسی جماعتوں کو بھی نوٹس جاری کیے جائیں جس پر عدالت نے کہا کہ ’ہم کیس کو طویل نہیں کرنا چاہتے لیکن ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے انھیں عدالتی کارروائی بارے میں آگاہی ہوگی۔ اگر وہ چاہیں تو اسی کو نوٹس سمجھتے ہوئے اہنا جواب داخل کرا سکتی ہیں۔ ‘
عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ 

شیئر: