Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ایران کے ساتھ معاہدہ ڈائیلاگ سے تنازعات حل کرنے کی مشترکہ خواہش کا اظہار‘

سعودی وزیر خاجہ کا کہنا ہے وہ ایرانی ہم منصب سے جلد ملاقات کے منتظر ہیں ( فوٹو: عرب نیوز)
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ ’سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے سعودی عرب اور ایران کا معاہدہ اس مشترکہ خواہش کو ظاہر کرتا ہے کہ دونوں ملک رابطے اور بات چیت کے ذریعے تنازعات حل کرنے کے خواہاں ہیں‘۔
تاہم انہوں نے مزید کہا کہ ’اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے درمیان تمام زیر التوا تنازعات کو حل کرنے کا کوئی معاہدہ طے پا گیا ہے۔‘
یاد رہے کہ سعودی عرب اور ایران جمعے کو کئی برسوں کی کشیدگی کے بعد سفارتی تعلقات دوبارہ بحال کرنے اور دو ماہ کے اندر ایک دوسرے کے ملک میں اپنے اپنے سفارت خانے کھولنے پر رضامند ہوئے تھے۔
 ایس پی اے کے مطابق ’یہ پیش رفت عوامی جمہوریہ چین کے صدر شی جن پنگ کے شاندار اقدام اور سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ ایران کے درمیان اچھے تعلقات کے فروغ کے لیے چین کی حمایت کے جواب میں ہوئی ۔
چین کے زیر اہتمام معاہدہ طے پانے کے بعد الشرق الاوسط کو پہلے انٹرویو میں شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ ’وہ اس معاہدے کو آگے بڑھانے کےلیے اپنے ایرانی ہم منصب سے جلد ملاقات کے منتظر ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ’ ہم دو ماہ کے اندر اپنے سفارتی تعلقات بحال کرنے کی تیاری کررہے ہیں اور مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان دوروں کا تبادلہ ہمارے لیے معمول کی بات ہے‘۔
کیف اور ماسکو کے اپنے حالیہ دورے اور یوکرین کی جنگ روکنے کے لیے سعودی ثالثی کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’سعودی عرب ایک سیاسی حل تک پہنچنے کےلیے دونوں ملکوں کے ساتھ کام کرنے اور کوششیں تیز کرنے کےلیے تیارہے تاکہ بحرانوں اور لڑائی کا خاتمہ اور زندگیوں کو بچایا جا سکے‘۔
انہوں نے کشیدگی کے خاتمے پر زور دیا جس نے روس، یوکرین اور یورپ کی سلامتی کو نقصان پہنچایا ہے۔
الشرق الاوسط: سعودی عرب اور ایران نے دو ماہ کے اندر سفارتی تعلقات کی بحالی اور اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کے معاہدے میں سعودی عرب کا براہ راست مفاد کیا ہے؟ کیا یہ معاہدہ خطے میں سیاسی اور اقتصادی سطح پر اور خطے کے پچیدہ مسائل سلجھانے میں ایک نئے مرحلے کی راہ ہموار کرے گا؟۔
شہزادہ فیصل بن فرحان: دراصل سفارتی تعلقات ریاستوں کے درمیان تعلقات کی بنیاد ہوتے ہیں۔ یہ دو ہمسایہ ملکوں سعودی عرب اور ایران کےلیے کہیں زیادہ اہم ہیں کیونکہ دونوں کے مذہبی، ثقافتی اور تاریخی رشتے ہیں اور دونوں مشترکہ تمدن رکھتے ہیں۔ یہ معاہدہ چین کی سرپرستی اور ثالثی کےذریعے گزشتہ دو برسوں کے دوران عراق اور سلطنت عمان میں فریقین کے دوران مذاکرات کےکئی ادوار کے بعد طے پایا ہے۔ سعودی عرب کشیدگی کو کم کرنے  کے لیے کوشاں رہا ہے کیونکہ مملکت کو علاقائی اور بین الاقوامی امن واستحکام  کے فروغ میں اپنی ذمہ داری اور کردار کا احساس ہے۔ سفارتی تعلقات کی بحالی پر رضا مندی کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے درمیان تمام تنازعات کے حل تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ معاہدہ  ڈائیلاگ، رابطے، سفارتی ذرائع اور پرامن طریقے سے تنازعات کے حل کےلیے ہماری مشترکہ خواہش کی علامت ہے۔ ہم  سعودی عرب میں ایران کے ساتھ تعلقات کا نیا باب شروع کرنے کی امید رکھتے ہیں جو نہ صرف ایران اور سعود ی عرب بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کی جڑیں گہری کرے گا۔ ترقی اور خوشحالی کے عمل کو آگے بڑھانے میں مدد گار ہوگا۔

مشترکہ اعلامیے میں دوسرے ممالک کے معاملات میں عدم مداخلت اور ان کی خود مختاری کے احترام پر زور دیا گیا۔ (فوٹو: ایس پی اے)

الشرق الاوسط: ایرانی وزیر خارجہ کے ساتھ معاہدے کو موثر بنانے اور سفیروں کے تبادلے کے طریقہ کار پر اتفاق رائے کےلیے آئندہ اجلاس کب ہوگا۔ کیا ہم آپ کوجلد ایران میں دیکھ سکیں گے؟۔
شہزادہ فیصل بن فرحان: میں معاہدے کو آگے بڑھانے کے لیے ایرانی وزیر خارجہ کے ساتھ جلد ملاقات کا منتظر ہوں۔ ہم اگلے دو ماہ میں سفارتی تعلقات بحال کرنے کی تیاری کریں گے۔ فریقین کا ایکدوسرے کے یہاں دوروں کا تبادلہ ایک فطری بات ہے۔
الشرق الاوسط: ایران اور سعودی عرب کی جانب سے سہ فریقی مشترکہ اعلامیے میں دوسرے ممالک کے معاملات میں عدم مداخلت اور ان کی خود مختاری کے احترام پر زور دیا۔ اس کے باجود امریکہ نے ایران کے عزم  پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا معاہدے میں اندرونی امور میں عدم مداخلت کو یقینی بنانے کےلیے کچھ شرائط رکھی گئی ہیں اور کیا آپ کو یقین ہے کہ ایران اس کااحترام کرے گا؟۔
شہزادہ فیصل بن فرحان: ایران کے ساتھ تعلقات کے نئے باب کے آغاز کا اہم ترین تقاضا فریقین کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی پاسداری ہے۔ سہ فریقی مشترکہ اعلامیے کا احترام کیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں ملکوں بلکہ پورے خطے کا مفاد اس امر میں ہے کہ بالادستی کے بجائے ترقیاتی امور پر توجہ مرکوز کی جائے۔ ہم آہنگی اور تعاون کےعمل کو موثرکیا جائے۔ خطے کی نئی نسلیں بہتر مستقبل کے حوالے سے جو خواب دیکھ رہی ہیں وہ پورے ہوں۔ امن استحکام اور خوشحالی کا دور دورہ ہو۔ ہمیں امید ہے کہ ایران بھی ہماری طرح یہ امیدیں اور اہداف رکھتا ہے ہم ان کی تکمیل کے لیے مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں۔

ایران کے ساتھ تعلقات کا نیا باب شروع کرنے کی امید رکھتے ہیں(فوٹو: ایس پی اے)

الشرق الاوسط: ایران اب کچھ عرصے سے کئی بحرانوں سے دوچار ہے جیسا کہ اس کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کا خاتمہ اور داخلی حالات جو ایک کے بعد ایک بحران کا باعث بن رہے ہیں۔ ساتھ ہی سماجی اوراقتصادی خدشات کا دباو بھی بڑھ رہا ہے تاہم بعض فریق خصوصا مغربی ممالک کا خیال ہے کہ یہ نیا معاہدہ ایرانی حکومت کےلیے لائف لائن ثابت ہوسکتا ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے؟۔
شہزادہ فیصل بن فرحان: میں آپ کے سوال کے بیشتر نکات پر گفتگو نہیں کروں گا کیونکہ ان کا زیادہ تر تعلق ایران کے اندرونی معاملات سے ہے۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ایران ہمسایہ ملک ہے۔ اس کا استحکام اور ترقی پورے خطے کے استحکام اور ترقی کے مفاد میں ہے۔ ہم سعودی عرب میں ایران کےلیے بھلائی کے سوا کچھ نہیں چاہتے۔ جہاں تک ایران کی جانب سے اپنی جوہری صلاحیتوں کو مسلسل بڑھاتے رہنے کا معاملہ ہے تو یہ بلا شبہ ہمارے لیے تشویشناک ہے۔ ہم نے بارہا خلیج اور مشرق وسطی کے علاقے کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے سے پاک علاقے بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایران پرزور دیتے ہیں کہ ایٹمی امور کے حوالے سے اس نے جو عہد وپیمان کیے ہیں انہیں پورا کرے اوربین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ اپنے تعاون کو بڑھائے۔ ہم اس امر کو یقینی بنانے کے لیے اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔
الشرق الاوسط: چین علاقائی بحرانوں کو حل کرنے کے اقدامات میں اپنا سفارتی وزن ڈالنے کی عادت نہیں رکھتا۔ سوال یہ ہے کہ چین ہی ثالث کیوں تھا۔ کسی دوسرے ملک نے کیوں حصہ نہیں لیا؟۔

سعودی عرب نے دوست ملک چین کے صدر کے انیشیٹو کا خیر مقدم کیا(فوٹو: ایس پی اے)

شہزادہ فیصل بن فرحان: جیسا کہ مشترکہ اعلامیے میں یہ بات موجود ہے کہ سعودی عرب نے دوست ملک چین کے صدر شی جن پنگ کے انیشیٹو کا خیر مقدم کیا اور اس انیشیٹو پر دو برس سے ایران کے ساتھ جاری مذاکرت کو آگے بڑھانے کےلیے چین نے کردار ادا کیا۔ یہ بات اوجھل نہیں کہ چین کے ایران اور سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں جنہوں نے ہم آہنگی کے حصول اور سعودی عرب کے جائز خدشات کو اجاگر کرنے میں مدد کی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ چین کی جانب سے معاہدے کی سرپرستی ہمارے خطے میں مشترکہ امن، پرامن بقائے باہم اور ممالک کے درمیان حسن ہمسائیگی کو تقویت دے گی۔ تینوں ممالک ایک ایسا علاقائی ماحول بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں جس میں امن وامان اور استحکام کا دور دورہ ہو تاکہ علاقائی اور بین الاقوامی شراکت داریوں کی تعمیر اور ترقی کی راہ ہموار ہوسکے۔ خطے کے عوام اور ممالک کی اقتصادی خوشحالی اور ترقی کے تقاضے پورے ہوں۔
الشرق الاوسط: آپ نے ماسکو میں روس، یوکرین تنازع ختم کرانے کا انیشیٹو پیش کیا۔ کیا آپ ماسکو میں اپنے سفارتی مشن پر مزید روشنی ڈال سکتے ہیں؟۔ خاص طور پر متحارب فریق سعودی عرب کے کسی بھی کردار کو کس حد تک قبول کررہے ہیں اور کیا آپ نے اس سلسلے میں کوئی مرجلہ طے کرلیا ہے اور کیا آپ اپنی کامیابی کے حوالے پرامید ہیں؟۔
شہزادہ فیصل بن فرحان: ہم ایسے سیاسی حل تک پہنچنے کےلیے مصالحتی کوششیں کرنے اور دونوں ملکوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار تھے اور اب بھی تیار ہیں جس سے بحران اور جنگ ختم ہوجائے اور انسانی جانوں کے ضیاع سے بچاجا سکے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی کوششوں سے فریقین کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہوا۔ دس ممالک کے باشنوں کی اپنے اپنے ممالک واپسی ممکن ہوئی۔ سعودی عرب جنگ سے پیدا ہونے والی فوری انسانی ضروریات کی تکمیل پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ یوکرین کےلیے ہماری طرف سے انسانی امداد اسی کا نتیجہ ہے۔ درپیش صورتحال فریقین اور پوری عالمی برادری سے اس خطرناک کشیدگی کو رکونے کی متقاضی ہے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ دونوں ملکوں کا نقصان ہوا بلکہ یورپی امن اس سے متاثر ہوا ہے اور اس جنگ میں عالمی تعاون کو کمزور کردیا ہے۔

شیئر: