Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومتی اتحاد کا اجلاس بدھ کو، پی ٹی آئی سے مذاکرات پر اتفاق ممکن؟

اگر مسلم لیگ ن مذاکرات پر اہم پیش رفت نہیں کر پاتی تو پھر پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کا عمل جاری رہے گا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
گذشتہ ہفتے جب سپریم کورٹ میں تمام سیاسی جماعتوں نے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی اور سیاسی بحران کا حل بات چیت سے نکالنے کی خواہش کا اظہار کیا تو یوں لگا کہ شاید عید واقعی خوشی اور سکون کی نوید لے کر آئی ہے۔
یہ توقع پیدا ہوئی کہ چھٹیوں کے فوراً بعد تمام متحارب سیاست دان مل بیٹھ کر سب سے مرکزی تنازعے یعنی الیکشن کی تاریخ کے انتخاب کو سُلجھا لیں گے۔ 
تاہم پھر دُھند چھٹنا شروع ہوئی اور منظر واضح ہوا تو اندازہ ہوا کہ سیاسی جماعتوں نے مذاکرات کی ہامی تو بھر لی ہے لیکن وہ ان کے نتائج ابھی بھی اپنی مرضی کے حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ 
حکمران اتحاد میں شامل اہم جماعت جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ فضل الرحمان جو حکومتی اتحاد کے بھی سربراہ ہیں نے تو سرے سے اس بات چیت کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔  
پاکستان تحریک انصاف جو جلد انتخابات کے لیے گذشتہ ایک سال سے کوشش کر رہی ہے، نے پہلے ہی مرکزی حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے ارادوں پر شکوک ظاہر کیے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ ’مسلم لیگ ن مذاکرات کو انتخابات میں تاخیر کے لیے بطور ہتھکنڈہ استعمال کر رہی ہے۔‘
اس کے ساتھ ہی عید کے تیسرے دن یعنی پیر کے روز سے ہی پنجاب میں 14 مئی کو طے شدہ انتخابات کی تیاری کے لیے مہم چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ 
پارٹی کے قریبی ذرائع اس بات کی نشاندہی بھی کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی انتخابات ایک روز منعقد کرانے کے لیے مذاکرات کے بجائے پہلے پنجاب میں الیکشن لڑنے کی خواہش مند ہے کیونکہ اس سے اس کو سیاسی فائدہ ہو گا۔ 
حکومت کی اہم اتحادی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی نے واضح طور پر مذاکرات کے لیے کوشش کی ہے اور اس کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔

 پی ٹی آئی مذاکرات کے بجائے پہلے پنجاب میں الیکشن لڑنے کی خواہش مند ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

کمیٹی نے بات چیت کا ساز گار ماحول تیار کرنے کے لیے ایم کیو ایم، اے این پی اور مولانا فضل الرحمان سے رابطے اور ملاقاتیں کی ہیں۔
اس کے ساتھ ہی پاکستان پیپلز پارٹی نے پنجاب کے انتخابات کی تیاریاں بھی شروع کردی ہیں اور اپنے ٹکٹ ہولڈرز کے معاملات کو سلجھا رہی ہے۔ 
ادھر مسلم لیگ ن نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ ’انہوں نے مذاکرات کے لیے پی ٹی آئی سے رابطہ کر لیا ہے اور عید کے فوراً بعد ان کے ساتھ بات چیت کریں گے۔‘
تاہم پارٹی کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے ایک ٹویٹ میں واضح اشارہ دیا ہے کہ وہ تحریک انصاف سے ان مذاکرات کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں کیونکہ بقول ان کے ’بات چیت سیاسی جماعتوں سے ہوتی ہے، دہشت گرد گروہوں سے نہیں۔‘
وفاقی وزیر داخلہ اور مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ نے بھی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’عدالتی دباؤ کے تحت مذاکرات کا عمل مناسب نہیں ہے۔‘
 انہوں نے پی ٹی آئی پر مذاکرات لیے غیرسنجیدگی کا الزام بھی لگایا اور کہا کہ ’عمران خان 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔‘  

مسلم لیگ ن نے بات چیت کے لیے حکمت عملی پر 27 اپریل کو سپریم کورٹ کو آگاہ کرنا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

مولانا فضل الرحمان نے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ ’وہ عمران خان کے سامنے مذاکرات کے لیے کسی صورت اور کسی کے بھی کہنے پر نہیں جُھکیں گے۔‘ 
اس سارے عمل میں کسی حد تک نیوٹرل سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کافی پرامید ہے کہ عید کے بعد ان کی مجوزہ آل پارٹیز کانفرنس مثبت پیش رفت کا ذریعہ ثابت ہو گی۔ 
تاہم بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے میں سپریم کورٹ کے حکم کے تحت ہونے والی گفت وشنید جہاں ایک طرف اس معاملے کو کسی ایک انجام کی طرف دھکیل رہی ہے وہاں اس نے بالخصوص حکمراں جماعت کو ایک مرتبہ پھر مشکل صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔ 
حکومت نے 26 اپریل کو اپنے اتحادیوں کا اجلاس طلب کر رکھا ہے جس میں تمام حکمراں جماعتوں بشمول مولانا فضل الرحمان سے مذاکرات کے عمل پر مشاورت ہو گی۔ 
قوی امکان یہی ہے کہ اس میں مولانا فضل الرحمان مذاکرات کی کھل کر مخالفت کریں گے جبکہ پیپلز پارٹی بات چیت کی حمایت کر رہی ہے۔ 

مولانا فضل الرحمان نے بھی اپنی جماعت کا اجلاس 26 اپریل کو طلب کرلیا ہے اور اگر اس اجلاس کے بعد وہ اپنے موقف پر ڈٹ جاتے ہیں تو یہ حکمراں اتحاد میں دراڑیں ڈالنے کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ 
مسلم لیگ ن نے بھی 26 اپریل کو ہی پی ٹی آئی سے مذاکرات کے لیے بات چیت کرنی ہے اور اس کے نتیجے کے بارے میں 27 اپریل کو سپریم کورٹ کو آگاہ کرنا ہے جس کی روشنی میں عدالت اگلا حکم جاری کرے گی۔ 
اگر مسلم لیگ ن عدالت میں فیصلہ کن مذاکرات سے متعلق کسی اہم پیش رفت کی یقین دہانی کرانے میں ناکام رہتی ہے تو پھر 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کا عمل جاری رہے گا اور اس کا ان کو سیاسی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ 
دوسری صورت میں کامیاب مذاکرات کے لیے مولانا فضل الرحمان کو راضی کرنا اور پی ٹی آئی کو عام انتخابات کی واضح تاریخ دینا ضروری ہے جو فوری طور پر ممکن نظر نہیں آتا۔  

شیئر: