رکن شوری نے مطالبہ کیا کہ ’ وزارت اشیائے کے انتہائی نرخ مقرر کرے‘(فوٹو،ایس پی اے)
سعودی ارکان شوری نے وزارت تجارت کو تاکید کی ہے کہ اشیائے صرف کی قیمتوں کو کننٹرول کیا جائے۔
نرخوں میں فرق کا نوٹس لیا جائے۔ مارکیٹوں کے حوالے سےعوام میں پائی جانے والی تشویش کو دورکیا جائے۔
سعودی خبررساں ادارے ’ایس پی اے‘ کے مطابق ارکان شوری نے تجارتی وسرمایہ کاری کمیٹی کی رپورٹ پربحث کے بعد سامان تجارت اورمارکیٹوں کے حوالے سے عوام میں پائی جانے والی تشویش پروزارت تجارت سے خفگی کا اظہار کیا۔
رکن شوری انجینیئر مفرح الزہرانی نے وزارت تجارت سے مطالبہ کیا کہ وہ تجارتی مراکز میں اشیائے صرف کے نرخوں میں فرق اور مہنگے نرخوں کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے مزید اقدامات کرے۔
ایک اور رکن شوری ڈاکٹر صالح الشمرانی نے الزہرانی سے اتفاق رائے کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ وزارت تجارت اشیائے صرف کے انتہائی نرخ مقرر کرے۔
انہوں نے ایک مطالبہ یہ بھی کیا کہ مملکت بھر میں کوآپریٹو سوسائٹیاں قائم کی جائیں جو اشیائے ضرورت سستے داموں فراہم کریں۔
الشمرانی نے اس بات پر زور دیا کہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے تجارتی مراکز میں غیرملکیوں کی سرگرمیوں کو قابو کیا جائے۔
سعودیوں کے نام سے غیرملکیوں کے کاروبار کے رواج کو ختم کرنے کے سلسلے میں نئے طور طریقے آزمائے جائیں۔
ایک اور رکن شوری ڈاکٹر خالد المحیسن نے کہا کہ صارفین کو استحصال سے بچانے کے لیے وزارت کے انسپکٹرز موثر کردار ادا کریں۔
خاص طور پر آن لائن کاروبار کو زیادہ متوازن بنایا جائے ۔ ایک اور رکن شوری ڈاکٹر محمد آل عباس نے سوال اٹھایا کہ آخر تجارتی مراکز کے بعض کارکنان ادائیگی کی رقموں میں رد وبدل کیوں کرتے ہیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے وزارت تجارت اب تک سامنے کیوں نہیں آئی۔
رکن شوری یوسف السعدون نے کہا کہ تجارتی مراکز غیرملکی نام رکھ رہے ہیں پابندی کے باوجود ایسا ہورہا ہے۔ اس سلسلے میں وزارت کی جانب سے لاپروائی کیوں برتی جارہی ہے۔
رکن شوری ڈاکٹر محمد الجربا نے وزارت تجارت سے پرزور اپیل کی کہ وہ صارفین کے تحفظ کا قانون جلد از جلد جاری کرے۔ اشیائے صرف کے حوالے سے مہنگائی کی لہر کو قابو کرنے کے لیے قانون کے فوری اجرا کی اشد ضرورت ہے۔
رکن شوری ڈاکٹر عبداللہ السلامہ نے مطالبہ کیا کہ مقامی تاجر کی سجل تجاری (کمرشل رجسٹریشن) کی فوری منسوخی کا طریقہ کار جاری کیا جائے۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں کاروبار جاری رہتا ہے اور مختلف جرمانے لگتے رہتے ہیں۔