Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ترقیاتی منصوبے، انٹرن شپ، لیپ ٹاپ اور زرعی قرضے: پی ڈی ایم کا الیکشن وکٹری پلان

حکومت کی کوشش ہے کہ بجٹ کے بعد اسمبلیاں تحلیل کی جائیں (فوٹو: مسلم لیگ ن، سوشل میڈیا)
پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینیئر رہنما اور وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت اگلے انتخابات سے قبل وفاقی بجٹ کے ذریعے ملک بھر کے 20 پسماندہ ترین اضلاع میں ترقیاتی سکیموں اور انفراسٹرکچر منصوبوں کا آغاز کرنے جا رہی ہے۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان منصوبوں میں تعلیم، امن و امان، صحت عامہ اور تعمیر و ترقی کے دیگر کام شامل ہیں جن سے ان علاقوں میں عوامی تعمیر و ترقی کا جال بچھ جائے گا۔
اس کے علاوہ وفاقی حکومت نوجوانوں کو بااختیار بنانے اور قومی فیصلوں میں ان کی شرکت کو یقینی بنانےکے لیے ’بااختیار نوجوان پروگرام‘ کے تحت نجی و سرکاری ترقیاتی منصوبوں میں 60 ہزار انٹرن شپ، لیپ ٹاپ سکیم اور زرعی قرضوں کے علاوہ نئے منصوبوں کا اجرا بھی کر رہی ہے۔
یہ تفصیلات احسن اقبال نے ایک سوال کے جواب میں دیں جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے فوری طور پر اسمبلیاں توڑنے کے مطالبے کے باوجود حکومت کیوں بجٹ پیش کر کے مستعفی ہونے کی خواہشمند ہے اور بجٹ میں وہ ایسا کیا کر لیں گے جس سے سیاسی صورتحال ان کے حق میں بدل جائے گی۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم کی حکومت کا سب سے اہم ایجنڈا معیشت کی بحالی اور معاشی اداروں کی کارکردگی کو درست سمت میں گامزن کرنا ہے۔
’ہم نے اقتدار میں آتے ہی تحریک انصاف کے گذشتہ برس کے مقابلے میں معاشی خسارہ کم کیا۔ معیشت کی بحالی کے لیے سخت فیصلے کیے تاہم اس کے باوجود عوام کو ریلیف دینے کا عمل بھی جاری رکھا۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ برس آخری سہہ ماہی میں ترقیاتی بجٹ کے لیے رقم جاری نہیں کی گئی، اس کے برعکس اس سال وزارت منصوبہ بندی و ترقی نے خصوصی اقدامات کرتے ہوئے چوتھی سہ ماہی کے دوران جاری ترقیاتی منصوبوں کے لیے 129 ارب روپے جاری کیے۔
’آخری سہ ماہی کے لیے جاری 129 ارب روپے کے بعد مجموعی ترقیاتی بجٹ تحریک انصاف کے 400 سو ارب روپے سے بڑھ کر 600 ارب روپے ہو گیا۔

وفاقی وزیر احسن اقبال نے اردو نیوز کو بتایا کہ حکومت کا مقصد معشیت کو مکمل طور پر بحال کرنا ہے (فوٹو: پی ایم ایل این)

احسن اقبال نے کہا کہ آئندہ بجٹ میں عوام کو ریلیف یقینی بنانے کے لیے ترجیحات کا تعین کر رہے ہیں۔ تعلیم، برآمدات، صحت، توانائی، ای گورننس اور وسائل کی فراہمی میں تمام شہریوں کو مساویانہ بنیادوں پر وسائل اور مواقع کی فراہمی آئندہ بجٹ میں ہماری اہم ترین ترجیحات رہیں گی۔
واضح رہے کہ رواں برس پاکستان میں انتخابات ہونے ہیں اور اس سے پہلے دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پی ٹی آئی میں مقبولیت اور بیانیے کی جنگ زوروں پر ہے۔ پی ڈی ایم حکمران اتحاد کی سربراہ جماعت مسلم لیگ ن کو ہمیشہ سے اپنے ترقیاتی منصوبوں پر فخر رہا ہے لیکن اس کے باوجود موجودہ سیاسی حالات کے باعث بظاہر تحریک انصاف کی مقبولیت اور حکمران اتحاد کے خلاف بیانیے نے انتخابات سے پہلے انہیں اس کے نتائج کے بارے میں پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔
اس حوالے سے معاشی تجزیہ کار شہباز رانا نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا ’پی ڈی عوامی مفاد کا بجٹ صرف اس صورت میں ہی لا سکتی ہے کہ اگر وہ آئی ایم ایف کی شرائط سے باہر ہو۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ ’اگلے سال کے بارے میں بجٹ میں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا بجٹ آئی ایم پروگرام کے تحت ہوگا یا پھر اس سے ہٹ کر ہو گا؟ اگر تو بجٹ آئی ایم ایف کے تحت ہو گا تو اس میں حکومت کے پاس کوئی بہت بڑا مارجن نہیں ہے کہ وہ عوام کو کچھ ایسا دے سکے کہ جس سے ووٹر ان کی جانب مائل ہو جائے۔ تاہم اگر حکومت آئی ایم ایف سے ہٹ کر کچھ کرنا چاہتی ہے تو یہ ایک سیاسی بجٹ ہو گا جس میں حکومت اپنے ووٹرز کو مطمئن کرنے کے لیے کچھ  پروگرام بجٹ کے ذریعے منظور کر سکتی ہے۔‘

عمران خان کا مطالبہ ہے کہ بجٹ مجوزہ نگراں حکومت پیش کرے (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’اس بجٹ میں پائیدار ترقی کے پروگرام کے تحت نئے منصوبے شروع کیے جا سکتے ہیں جن کی منظوری پی ایس ڈی پی کے ذریعے دی جائے گی۔ اس پروگرام کے تحت موجودہ حکومت نے بجٹ پہلے ہی 70 ارب روپے سے بڑھا کر 90 ارب روپے کر دیا ہے۔  پی ڈی ایم سے تعلق رکھنے والے ہر رکن قومی اسمبلی کے حلقے میں 50، 50 کروڑ روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ آنے والے بجٹ میں اس میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کے لیے قرضوں، تعلیم کے شعبے میں وظائف، تربیت اور انٹرن شپ وغیرہ جیسے کئی ایک اہم اقدامات کی منظوری بھی ممکن ہے۔ چونکہ اس وقت پی ڈی ایم کو اپنی مقبولیت کو لے کر سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے تو ممکن ہے کہ وہ اس سیاسی بجٹ میں مختلف شعبوں میں ٹیکسوں کی شرح میں کمی کر دے جس سے ان کا کاروباری ووٹر اور عوام خوش ہو جائیں۔ تاہم اس کا انحصار اس پر ہے کہ بجٹ آئی ایم ایف کے مطابق ہے یا ویسے ہی دیا جا رہا ہے۔
شہباز رانا کے مطابق ’عملی طور پر پی ڈی ایم حکومت نے صرف بجٹ پیش کرنا ہے اس کے بعد اس پر عمل درامد کے لیے وقت نہیں ہو گا سوائے ٹیکس معاملات کے، اس لیے ان کی کوشش ہو گی کہ وہ بجٹ کو عوامی اور سیاسی بجٹ بنائے تاکہ عوام میں واپس جا سکیں۔ جو بھی نئی حکومت آئے گی اسے پھر آئی ایم ایف سے معاملات کو درست کرتے ہوئے اس بجٹ پر عملدرامد کرنا پڑے گا۔‘
وزارت منصوبہ بندی کے حکام نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ آنے والے بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں میں جہاں گلیاں نالیاں، پانی، سیوریج اور دیگر فلاح عامہ کے منصوبوں کے لیے رقم میں اضافہ کیا جا رہا ہے وہیں یوتھ لون سکیم، لیپ ٹاپ سکیم، زرعی قرضہ سکیم، آسان کاروبار سکیم جیسے متعدد منصوبوں کی مد میں فنڈز میں اضافہ کرنے کی منظوری لی جائے گی۔
معاشی تجزیہ کار شکیل احمد کے مطابق ’موجودہ مالی سال ارکان پارلیمنٹ کی ترقیاتی سکیموں کے لیے 70 ارب روپے سے زیادہ فنڈز مختص کیے گئے تھے جن میں بعد میں 20 ارب روپے کا مزید اضافہ کر کے 90 ارب روپے کر دیا گیا۔ کابینہ ڈویژن کے ذریعے ارکان پارلیمنٹ کی ترقیاتی سکیموں کے لیے مختص کردہ فنڈز میں سے مارچ 2023 تک تمام 90 ارب روپے جاری کرنے کی بھی منظوری دے دی گئی ہے البتہ پہلے نو ماہ کے دوران 49 ارب 85 کروڑ روپے خرچ بھی کیے جا چکے ہیں۔

رواں مالی سال میں ارکان پارلیمنٹ کی ترقیاتی سکیموں کے لیے 70 ارب روپے سے زیادہ فنڈز مختص کیے گئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے یہ فنڈز گلیوں، سڑکوں، نالیوں کی تعمیر، پانی اور گیس سے سکیموں پر خرچ کیے۔ مالی سال کی آخری سہ ماہی میں یعنی اپریل سے جون تک  مزید 40 ارب روپے کے مساوی فنڈز خرچ کرنے کا امکان ہے۔ اب نئے مالی سال میں اس مد میں اچھا خاصا اضافہ متوقع ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’کابینہ کمیٹی برائے توانائی مسلم لیگ ن کے 2013 سے 2018 کے دوران  تیسرے دور حکومت کے دوران منظور کردہ گیس سکیمیں ترجیحی بنیاد پر مکمل کرنے کی پہلے ہی منظوری دے چکی ہے۔ انتخابات قریب آتے ہی ان پر کام تیز ہونے کا امکان ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان سکیموں کو روک دیا تھا۔ اس سلسلے میں فنڈز بھی نئے مالی سال کے بجٹ میں مختص کیے جائیں گے۔‘
ان کے مطابق ’وزیر خزانہ اسحاق ڈار نئے مالی سال کا بجٹ خود پیش کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں جبکہ پی ٹی آئی اس کی مخالفت کر رہی ہے۔‘
انتخابات کے پیش نظر پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ نیا بجٹ مجوزہ نگران حکومت پیش کرے۔ پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ سیاسی بجٹ کی صورت میں جہاں پی ڈی ایم کو فائدہ ہو سکتا ہے وہیں انتخابات جیتنے کی صورت میں پی ٹی آئی کو ’بارودی سرنگوں‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

معاشی تجزیہ کار شہباز رانا کے مطابق ’اگر بجٹ آئی ایم ایف کے تحت ہوا تو حکومت کے پاس کوئی بہت بڑا مارجن نہیں ہو گا (فوٹو: اے ایف پی)

پی ڈی ایم کی منصوبہ بندی اور بجٹ ہوم ورک اپنی جگہ لیکن معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت سیاسی نعرے، تسلیاں، دلاسے اور وعدے تو عوام کے ساتھ کر سکتی ہے لیکن آئی ایم ایف کے پروگرام سے نکل کر کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ موجودہ آئی ایم ایف پروگرام 30 جون کو ختم ہو جائے گا جس کے بعد اس سے بھی بڑے پروگرام کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’جس طرح عمران خان نے آئی ایم ایف پروگرام سے ہٹ کر پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کرتے ہوئے سبسڈی دی تھی جس کا خمیازہ آج تک ملکی معیشت بھگت رہی اور ملکی زرمبادلہ کے ذخائر اسی فیصلے کی وجہ سے کم ترین سطح پر گر گئے تھے۔ اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے پی ڈی ایم کے پاس سیاسی بجٹ پیش کرنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بجٹ کی منظوری اگرچہ ایک آئینی عمل ہے لیکن اب اس میں سیاست بہت زیادہ شامل ہو چکی ہے۔ اس لیے اگر موجودہ حکومت بجٹ پیش کرے گی تو پھر یہ بھی بھول جائیں کہ انتخابات نومبر دسمبر سے پہلے ممکن ہوں گے۔

شیئر: