Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کی گرفتاری، پی ٹی آئی کے اہم رہنما منظر سے غائب کیوں؟

منگل کی رات گئے تک ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے جاری رہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتاری کے بعد ملک کے کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور آج بھی کہیں کہیں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
تحریک انصاف کے کارکنوں نے راولپنڈی، لاہور، کراچی، کوئٹہ اور خیبرپختونخوا کے کئی شہروں میں سٹرکیں بند کر دیں اور توڑ پھوڑ بھی کی۔
ان سب ہنگاموں میں تحریک انصاف کے پرچم اٹھائے ہوئے کارکن تو بڑی تعداد میں دکھائی دیے لیکن پی ٹی آئی کی قیادت خال خال ہی نظر آئی۔
جب عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتار کیا جا رہا تھا اس وقت ان کے ساتھ شبلی فراز، قاسم سوری، مسرت چیمہ، علی نواز اعوان اور خالد خورشید ان کے ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ میں موجود تھے۔ فواد چوہدری کے بارے میں اطلاع ہے کہ اس وقت وہ کورٹ روم میں تھے۔
 تاہم عمران خان کی گرفتاری کے وقت پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر، شاہ محمود قریشی اور شیریں مزاری عدالت میں نہیں دیکھے گئے۔ اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کے واقعے کے بعد ایک سے زائد مرتبہ میڈیا سے گفتگو کی۔
اس کے بعد اگلے روز بدھ کو اسد عمر کو اسلام آباد سے گرفتار کر لیا گیا۔ ایک اہم بات یہ بھی تھی تحریک انصاف کے رہنما مراد سعید جو عموماً عمران خان کی پر پیشی پر ان کے ساتھ نظر آتے تھے، وہ بھی منگل کو غائب تھے۔
راولپنڈی سے تحریک انصاف کے رہنما فیاض الحسن چوہان اور تحریک انصاف کے اتحادی شیخ رشید احمد بھی مظاہرین کے درمیان کہیں دکھائی نہیں دیے۔ اسی طرح ڈاکٹر شہباز گل، زلفی بخاری اور اعظم خان سواتی بھی نہیں دیکھے گئے۔

کراچی میں کارکن ہی پیش پیش تھے

کراچی میں شاہراہ فیصل پر پی ٹی آئی کے مظاہرین نے احتجاج کیا اور پولیس کی دو جبکہ رینجرز کی ایک چوکی کو نذرِ آتش کر دیا۔
کراچی میں اردو نیوز کے نامہ نگار زین علی کے مطابق وہاں ہونے والے مظاہروں میں تحریک انصاف کے نمایاں رہنماؤں سے کئی ایک غائب تھے۔ جو رہنما دکھائی نہیں دیے ان میں فردوس شمیم نقوی، سابق صدر پی ٹی آئی کراچی بلال غفار، پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی عالمگیر خان، راجہ اظہر، آفتاب جہانگیر اور آفتاب صدیقی کے نام شامل ہیں۔

لاہور میں صورت حال معمول پر آ رہی ہے

منگل کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد لاہور میں پرتشدد احتجاج دیکھا گیا اور کارکنوں کی بڑی تعداد کورکمانڈر ہاؤس میں گھس کر توڑپھوڑ بھی کرتی رہی۔
اردو نیوز کے لاہور کے نامہ نگار رائے شاہنواز کے مطابق لاہور کی قیادت کے نمایاں چہرے اس دوران منظر سے غائب تھے۔ پی ٹی آئی کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں اسلم اقبال اور حماد اظہر مظاہرین کے ساتھ نہیں تھے۔

تحریک انصاف کے کارکنوں نے اسلام آباد کی سڑکیں بھی بند کرنے کی کوشش کی (فوٹو: اے ایف پی)

لاہور کی تازہ ترین صورت حال کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ’اس وقت زمان پارک کے سامنے لگ بھگ 200 افراد موجود ہیں جبکہ لاہور کے دیگر مقامات اور سڑکیں کلیئر ہیں۔‘

پرویز خٹک، اسد قیصر اور محمود خان کہاں تھے؟

زیادہ پرتشدد احتجاج خیبرپختخواہ کے ضلع سوات، دیر اور پشاور میں دیکھنے میں آئی جہاں مظاہرین نے سرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچایا۔
یہاں بھی پرتشدد واقعات کے دوران تحریک انصاف کی قیادت میں شامل نمایاں افراد موجود نہیں تھے۔
پشاور میں اردو نیوز کے نامہ نگار فیاض احمد نے بتایا کہ منگل کو ہونے والے مظاہروں میں تحریک انصاف کے صوبائی صدر پرویز خٹک، اسد قیصر، سابق وزیراعلیٰ محمود خان، کامران بنگش، تیمور سلیم جھگڑا فرنٹ فٹ پر کہیں بھی نہیں تھے۔‘
ان کے بقول ’سابق گورنر شاہ فرمان دیر سے احتجاجی مظاہرے میں آئے لیکن کارکنوں نے جب ان کے خلاف نعرے بازی کی تو وہ جلد ہی وہاں سے واپس چلے گئے۔‘
اس کے علاوہ جنوبی پنجاب کے بعض علاقوں میں احتجاج ریکارڑ کیے گئے۔

کوئٹہ: پی ٹی آئی کے بیشتر ارکان اسمبلی غائب تھے

ادھر بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں بھی تحریک انصاف نے احتجاجی مظاہرے کیے جن میں صوبائی صدر ڈاکٹر منیر بلوچ اور جنرل سیکریٹری سالار کاکڑ موجود تھے۔
کوئٹہ میں اردو نیوز کے نامہ نگار زین الدین احمد کے مطابق کوئٹہ میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں تحریک انصاف کے مذکورہ رہنماؤں کے علاوہ پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی یا وزراء میں سے کوئی نظر نہیں آیا۔ البتہ قاسم خان سوری اسلام آباد میں عمران خان کے ساتھ موجود تھے۔

پاکستان کے زیرانتطام کشمیر میں محدود احتجاج

پاکستان کے زیرِانتظام جموں کشمیر کے کسی بھی شہر میں تحریک انصاف نے کوئی بڑا احتجاجی مظاہرہ نہیں کیا۔ دارالحکومت مظفرآباد میں سینٹرل پریس کلب کے سامنے 50 کے لگ بھگ کارکنوں نے کچھ دیر تک احتجاج کیا لیکن جلد ہی وہ وہاں سے چلے گئے۔
اس سے قبل پیر کی شب فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے عمران خان کے متعلق بیان کے بعد پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے سابق صدر نے ایک ویڈیو بیان میں عمران خان کے فوج سے متعلق بیانات کی مذمت کی تھی۔

گلگت، استور، چلاس اور سکردُو

عمران خان کی گرفتاری سے قبل اور اس کے بعد گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ خالد خورشید کافی متحرک دکھائی دیے۔ وہ لاہور کے زمان پارک سے لے کر اسلام آباد کی عدالتوں میں عمران خان کی پیشیوں کے موقعے پر برابر نظر آتے رہے۔
گلگت بلتستان سے متعلق صحافی عبدالجبار ناصر نے اردو نیوز کو بتایا کہ منگل کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد گلگت شہر، استور، چلاس اور سکردو میں تحریک انصاف کے کارکن باہر نکلے اور پی ٹی آئی گلگت بلتستان کے سینیئر نائب صدر شاہ ناصر، آغا بہشتی اور ڈاکٹر زمان نے تقاریر کیں۔

اکثر احتجاجی مظاہروں میں پی ٹی آئی کی صف اول کی قیادت دکھائی نہیں دی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

عمران خان کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر سیاسی تجزیہ کار رسول بخش رئیس نے اردو نیوز ست گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے نزدیک یہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا کہ جب ایک سابق وزیراعظم عدالت میں پیش ہونے کے لیے آیا تو اسے وارنٹ دکھائے بغیر گرفتار کر لیا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس وقت ملک میں قانون، آئین اور عدالتیں نہیں ہیں۔ یہ بھی عجیب بات تھی کہ آئی جی اسلام آباد کو تو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا لیکن گرفتاری کو قانونی قرار دے دیا گیا۔ پھر جو سماعت میں تین گھنٹے تاخیر ہوئی، یہ بھی قابل غور معاملہ ہے۔‘

’کرپٹ بارگین‘ چل رہی ہے‘

رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ ’امریکہ کی تاریخ میں ایک ‘کرپٹ بارگین‘ کا ذکر ملتا ہے۔ یہاں بھی اس وقت اسٹیبلشمنٹ اور حکومت میں شامل لوگوں کے درمیان کرپٹ بارگین چل رہی ہے۔ ان کا واحد مقصد عمران خان کو سیاسی منظر سے ہٹانا ہے۔‘
منگل کو مشتعل مظاہرین کی جانب سے سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’جب حالات خراب ہوتے ہیں تو ہر قسم کے لوگ آ جاتے ہیں۔ چلیں بالفرض مان لیں کہ یہ پی ٹی آئی کے کارکن تھے تو سوال یہ ہے کہ ان جگہوں کی حفاظت پر مامور سکیورٹی اہلکار، رینجرز اور پولیس والے اس وقت کہاں تھے۔ یہ جو کچھ ہوا اس کو بنیاد بنا کر تحریک انصاف پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔‘
عمران خان کی قید یا رہائی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’یہ فیصلہ اب وہ کریں گے جو پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگر انہیں لگا کہ وہ حالات کو کنٹرول کر سکتے ہیں تو شاید انہیں رہا کر دیا جائے ورنہ وہ قید ہی میں رہیں گے۔‘

’عمران خان کی صورت میں سیاسی بُت تراشا گیا‘

سینیئر تجزیہ کار وجاہت مسعود نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ سب کچھ پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے گئی تھی تو کئی لوگوں نے خود کو آگ تک لگا دی تھی۔ اس کے بعد سیاسی آوازوں کو ایک مارشل لا کے ذریعے بند کر دیا گیا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عمران خان کی صورت میں ایک سیاسی بُت تراشا گیا تھا اور ان کی جماعت کی یہ حالت ہے کہ اس کا کوئی سیاسی، معاشی یا معاشرتی موقف ہی نہیں ہے۔‘

بیرون ملک مقیم پی ٹی آئی کارکنان نے بھی عمران خان کی گرفتاری کے خلاف مظاہرے کیے (فوٹو: ٹوئٹر، پی ٹی آئی)

پی ٹی آئی کے مظاہروں میں مرکزی قیادت کی عدم موجودگی سے متعلق سوال کے جواب میں وجاہت مسعود کا کہنا تھا کہ ’پہلی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت ہے ہی نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر اوپری سطح کے لوگ نہیں آتے۔ وہ اپنی موجودگی میں ایسا نہیں کرواتے۔‘

’پی ٹی آئی کا حقیقی حجم سامنے آئے گا‘

پی ٹی آئی کے مستقبل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ’اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کی سطح اول اور دوسرے درجے کی قیادت کیا ردعمل دیتی ہے۔ ابھی یہی ہو گا کہ اس جماعت کا جتنا اصل حجم بنتا ہے، یہ اس کے ساتھ موجود رہے گی۔ ریاستی وقت سے کسی بھی سیاسی کانسیچیونسی کو تو ختم نہیں کیا جا سکتا۔‘
وجاہت مسعود نے مزید کہا کہ ’اہم نکتہ یہ ہے کہ کل جس کیس میں عمران خان کو گرفتار کیا گیا، اس کے دونوں سروں پر ملک ریاض کا نام ہے لیکن کل سے کسی بھی میڈیا آؤٹ لیٹ یا سیاسی جماعت کی جانب سے ان کا نام نہیں لیا گیا۔ اس لیے کہ وہ ’اثاثہ‘ ہیں۔‘

شیئر: