Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

 مصری طالبہ نیرہ اشرف کے قاتل کو یونیورسٹی کے سامنے موت کی سزا 

عدالت نے سزائے موت کے خلاف اعتراضات مسترد کردیے تھے (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
مصرمیں جیل حکام نے اپیل مسترد ہونے پر یونیورسٹی کے آرٹس گیٹ کے سامنے مصری طالبہ نیرۃ اشرف کے قاتل محمد عادل کو موت کی سزا دی ہے۔
سبق ویب سائٹ کے مطابق نیرۃ اشرف کو اس کے کلاس فیلو محمد عادل نے الدقھلیہ کمشنری میں واقع المنصورہ یونیورسٹی کی فیکلٹی آف آرٹس کے گیٹ  کے سامنے قتل کیا تھا۔ 
عدالت نے سزائے موت کے خلاف محمد عادل کے اعتراضات مسترد کردیے تھے۔ 
مصری پبلک پراسیکیوشن نے 25 شہادتیں قلمبند کرکے عدالت میں پیش کی تھیں۔ طلبہ اور یونیورسٹی کے  سیکیورٹی گارڈز کے علاوہ قریبی دکانداروں نے گواہی دی تھی کہ انہوں نے محمد عادل کو چھری سے وار کرکے ہلاک کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ 
نیرہ اشرف کے اہل خانہ اور اس کے دوستوں نے گواہی دی تھی کہ محمد عادل نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دیتا رہا تھا۔ اسے اس بات پر غصہ تھا کہ نیرۃٖ اشرف نے شادی سے انکارکیوں کیا۔
فوجداری کی عدالت  میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ محمد عادل نے جان بوجھ کر منصوبے کے تحت طالبہ کو قتل کیا۔
یاد رہے کہ مصر کی تاریخ میں فوجداری کے کسی بھی مقدمے کا فیصلہ اتنی تیزی سے نہیں سنایا گیا۔ 
پبلک پراسیکیوٹر حمادہ الصاوی نےمصری یونیورسٹی کی طالبہ قتل کا مقدمہ واردات کے 48 گھنٹے بعد فوجداری عدالت میں پیش کردیا تھا۔ 
یاد رہے کہ المنصورہ یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے شادی کی پیشکش سے انکار کرنے پر اپنی ہم جماعت کو چاقو کے وار کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
 یہ واقعہ جامعہ المنصورہ کی فیکلٹی آف آرٹس کے سامنے پیش آیا تھا۔
عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ ملزم شعبہ آرٹ کے تیسرے سال کا طالب علم تھا۔ اس نے طالبہ پر اس وقت حملہ کیا جب وہ اپنے گھر جانے کے لیے بس سٹاپ کی جانب بڑھ رہی تھی۔

عرب میڈیا میں یہ کیس مصری یونیورسٹی کے طالبہ کے نام سے جانا جاتا ہے ( فوٹو: عکاظ)

جب وہاں موجود افراد نے اس ملزم روکنے کی کوشش کی تو اس نے طالبہ کے گلے پر گہرا وار کر دیا جس کے بعد اسے سکیورٹی کے عملے اور راہ گیروں نے قابو کر لیا۔
عینی شاہد کے بقول حملہ آور اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ جب لڑکی نے انکار کیا تو اس شخص نے اس سے انتقام لینے کا فیصلہ کیا جبکہ اس سے قبل وہ لڑکی کو جان سے مارنے کی دھمکی بھی دے چکا تھا۔
مصر اور مشرق وسطی میں سوشل میڈیا پر یہ کیس موضوع بحث بنا رہا ہے۔ یہ کیس عرب میڈیا میں مصری یونیورسٹی کے طالبہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

شیئر: