پنشن اصلاحات ضروری ورنہ یہ بوجھ ناقابل برداشت ہو گا، اسحاق ڈار
سپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ (فوٹو: این اے ٹوئٹر)
پاکستان کے وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ پنشن کے حوالے سے قوانین میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
اتوار کو قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ پنشن اصلاحات ضروری ہے کیونکہ 800 ارب روپے سالانہ تک اس کا حجم بڑھ چکا ہے، کئی ممالک کے برعکس پاکستان میں پنشن کے حوالے سے صورتحال بہتر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں معاشی اصلاحات کی طرف جانا ہو گا ورنہ ایک وقت آئے گا جب یہ بوجھ ناقابل برداشت ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ بہت پرانا مسئلہ چل رہا تھا، ہمارا ملک غریب ہے، اس کو بہت پہلے ٹھیک ہو جانا چاہیے تھا۔
اسحاق ڈار نے وضاحت کی کہ گریڈ 17 سے 22 تک کے افسران دو پنشن کی صورت میں ایک پنشن وصول کر سکیں گے جبکہ ایک سے 16 گریڈ والے ملازمین پر اس کا اطلاق نہیں ہو گا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ’یہاں لوگ آرمی چیف، پھر چیف ایگزیکٹو اور پھر صدر پاکستان کی پنشن لیتے رہے ہیں جس کا غریب ملک متحمل نہیں ہو سکتا، اسی طرح پنشنر کی بیوہ کے انتقال پر پسماندگان کے لیے 10 سال کی مدت مقرر کی گئی ہے۔‘
رکن قومی اسمبلی غوث بخش مہر کی جانب سے ڈی اے پی کھاد پر سبسڈی کے خاتمے سے متعلق نکتہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ڈی اے پی پاکستان میں تیار ہوتا ہے، 1998-99 میں پاکستان میں اس کی فیکٹری لگائی گئی تھی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ امپورٹڈ ڈی اے پی پر سبسڈی ختم کر دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی کمپنی نے ڈی اے پی کی پیداوار میں اضافے کے لئے مزید 200 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان بھی کیا ہے۔
تاہم وزیر خزانہ نے کہا کہ اس معاملے کا بجٹ کے بعد جائزہ لیا جائے گا، زراعت معیشت کی نمو کا انجن ہے، کسان پیکج کے تحت ڈی اے پی کی قیمت 14 ہزار روپے سے کم کر کے 10 ہزار روپے کر دی گئی ہے۔