Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ملک میں الیکشن ہوئے تو عمران خان کا مستقبل کیا ہو گا؟ ماریہ میمن کا کالم

نواز شریف کی واپسی کی راہ میں کئی قانونی رکاوٹیں آہستہ آہستہ دور کی جا رہی ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)
ملک میں الیکشن کا ہونا بھی اب ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ اس سے قبل شاید اسمبلی کی پانچ سال مدت پوری ہونے کے بعد الیکشن کے بارے میں ایسا شش و پنج حالیہ تاریخ میں تو نہیں دیکھا گیا۔
اس دفعہ حالات مختلف ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات ملتوی ہو کر اب بحث سے بھی باہر ہو چکے ہیں۔ یہی غنیمت ہے کہ کم از کم موجودہ اسمبلی اپنی مدت پوری کر کے رخصت ہو رہی ہے۔ اگر نہ بھی ہوتے تو کوئی کیا کر لیتا؟ 
اسمبلی کی مدت البتہ بروقت انتخابات کی گارنٹی ہرگز نہیں ہے۔ کم از کم اگلے برس مارچ کا ذکر تو اب اکثر ہو رہا ہے۔ اس پر تو شاید صبر شکر بھی ہو جائے۔
آئی ایم ایف کی طرف سے نو مہینے ہی کی مہلت ملی ہے۔ اس نو مہینے کی مدت کو بھی معنی خیز سمجھا جا رہا ہے جو کہ مارچ میں ہی ختم ہو رہی ہے۔ ساتھ ساتھ ایک دو برس کی ٹیکنوکریٹ حکومت کا خواب دیکھنے والے اسلام آباد میں کم نہیں ہیں۔ کسی آئینی اور سیاسی راستے کے نہ ہوتے ہوئے بھی ان کا یہ پسندیدہ مشغلہ جاری و ساری رہتا ہے۔ 
تمام جمہوری، سیاسی اور آئینی سوچ رکھنے والوں کی امید، توقع اور خواہش یہی ہے کہ الیکشن اپنے وقت پر ہوں۔ حکومتی رہنماؤں کی ملاقاتوں میں سے کم از کم یہی تاثر ابھر رہا ہے۔ اس لیے زیادہ سوال اب اس صورتحال کے بارے میں ہیں کہ اگر انتخابات وقت پر ہوئے تو سیاسی نقشہ کیا ہو گا؟
سب سے پہلا سوال عمران خان اور پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل کا ہے۔ پی ٹی آئی کے تقریباً تمام سینیئر اور درمیانے درجے کے رہنماؤں کے جانے کے بعد بھی اس سوال کا جواب واضح نہیں ہے۔
کیا عمران خان الیکشن سے نااہل ہو کر باہر ہو جائیں گے؟ اس صورت میں 2018 کے الیکشن کو سلیکشن کہنے والے کس طرح اس الیکشن کی ساکھ کا دعوی کریں گے؟ اور اور دوسری طرف 90 دن کا وقت عمران خان کی نااہلی اور ممکنہ سزا کے لیے بظاہر تو کرکٹ کی اصطلاح میں  close finishہو گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عمران خان الیکشن سے باہر نہ ہو سکیں۔ اس صورت میں گویا اصل میں میچ پھنس جائے گا۔ 

90 دن کا وقت عمران خان کی نااہلی اور ممکنہ سزا کے لیے بظاہر تو کرکٹ کی اصطلاح میں close finish ہو گا۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

الیکشن کے ساتھ دوسرا سوال پی ٹی آئی کی بطور پارٹی شرکت کا ہے۔ مارشل لا کے علاوہ ملک میں مین سٹریم سیاسی پارٹیوں کو الیکشن سے باہر رکھنے کا رواج تو ہمارے نظام میں بھی ایک انوکھی روایت ہو گی۔ سیاسی جماعتوں پر پابندی آئین کے تحت کی جاتی ہے اور اس کے بارے میں کوئی قابل قدر مثال موجود نہیں جہاں پر سیاسی جماعتوں پر پابندی کو قبول عام ملا ہے۔ آئین اور جمہوریت کی دعوے دار جماعتوں کے لیے بھی یہ ایک امتحان ہے مگر ان کے حالیہ ردعمل کے تناظر میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ 
ایک طرف الیکشن کی صورت میں عمران خان کی نااہلی ایک سوالیہ نشان ہے تو دوسری طرف نواز شریف کی واپسی پر سب کی نظریں ہیں۔ ان کی واپسی کی راہ میں کئی قانونی رکاوٹیں آہستہ آہستہ دور کی جا رہی ہیں مگر کچھ بنیادی اور سیاسی سوال ابھی باقی ہیں۔ اگر وہ ن لیگ کی انتخابی مہم چلائیں گے تو کیا وزیراعظم کے امیدوار بھی خود ہوں گ ؟ نواز شریف کی واپسی اور عمران خان کی نااہلی کے ایک عام ووٹر پر کیا اثرات ہوں گے اور سب سے بڑھ کر نواز شریف کا بیانیہ کیا ہو گا اور کس کے خلاف ہو گا؟ 

آئی ایم ایف کی طرف سے نو مہینے ہی کی مہلت ملی ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)

الیکشن کے انتظامی مسائل بھی سب کے سامنے ہیں۔ شہباز شریف اور راجہ ریاض صاحب کی مشاورت سے جو نگران حکومت تشکیل پائے گی وہ اپنی غیرجانبداری کو کیسے یقینی بنائے گی؟ زیادہ امکان یہی ہے کہ اس سے پہلے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی نگران حکومتوں کی جو اپروچ رہی ہے ویسے ہی وفاقی نگران حکومت کی اپروچ بھی ہو گی۔ اس وقت انتظامیہ کے تمام ادارے حکومت کے تابع ہیں۔ کیا نگران حکومت آنے کے بعد بڑے پیمانے پر انتظامی تبدیلیاں کریں گی یا پھر موجودہ نظام کا ہی تسلسل ہو گا؟ 
اگر انتخابات ہوئے تو یہ سولات ہر ایک کے ذہنوں میں ہوں گے اور ان سوالات پر ہی اگلے انتخابات کے نتائج اور ساکھ کا دارومدار ہے۔

شیئر: