Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فلم ’باربی‘ نے سعودی فلم شائقین کو بھی اپنے سحر میں جکڑ لیا

فلم ’باربی‘ 10 اگست کو ریاض کے سنیما گھروں میں ریلیز کی گئی تھی (فائل فوٹو: عرب نیوز)
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں فلم بینوں کی بڑی تعداد امریکی باکس آفس پر ایک ارب ڈالر سے زائد کمانے والی فلم ’باربی‘ دیکھنے کے لیے سنیما گھروں کا رُخ کر رہی ہے۔
ہالی وُڈ فلم اپنی ریلیز کے بعد سے مشرقِ وسطٰی کے کئی ممالک میں ہدف تنقید بنی ہوئی ہے اور کویت نے تو ’باربی‘ پر پابندی بھی عائد کردی ہے جبکہ لبنان میں بھی ایسا فیصلہ لینے یا نا لینے کے حوالے سے بحث جاری ہے۔
اس فلم کے حوالے سے پورے خطے میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اس کے مواد سے علاقائی کلچر کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق گذشتہ جمعرات کو فلم ’باربی‘ کی نمائش کے پہلے دن ریاض میں فلمی شائقین کی بڑی تعداد گلابی رنگ کے ملبوسات اور دیگر چیزیں زیبِ تن کرکے سنیما گھر پہنچی جس سے مقامی افراد میں اس فلم کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
سعودی عرب میں فلم کی ریلیز سے قبل یہ افواہیں بھی گردش کر رہی تھیں کہ شاید مملکت میں بھی اس فلم پر پابندی عائد کردی جائے گی جس کی وجہ فلم کی نمائش میں 31 اگست تک تاخیر کی اطلاع بنی تھی۔
تاہم مارگٹ روبی اور رائن گوسلنگ کی یہ فلم 10 اگست کو ریلیز کردی گئی۔ اس فلم کے حوالے سے تعریف و تنقید کا ملا جُلا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے۔
یہ فلم ’اصل دنیا‘ میں خواتین کو پیش آنے والی پریشانیوں سے متعلق ہے لیکن خطہ عرب میں بعض افراد کا کہنا ہے کہ یہ فلم انتہائی ’فیمنسٹ نظریات‘ کو فروغ دے رہی ہے جس کا مقصد مردوں کی تضحیک کرنا ہے۔
چند افراد کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ فلم ’باربی‘ انہیں خاندانی کلچر کے خلاف نظر آتی ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ (ٹوئٹر) پر 10 اگست کو ایک صارف نے لکھا کہ ’جو بھی ٹکٹ کی بُکنگ کروا رہے ہیں انہیں ایمانداری سے بتا رہا ہوں کہ آپ پچھتائیں گے اور پوری فلم بھی ختم نہیں کر پائیں گے۔ آپ صرف اپنا ویک اینڈ ہی ضائع کریں گے۔‘
اطلاعات کے مطابق اس فلم کی مارکیٹنگ مہم پر 150 ملین ڈالر خرچ کیے گئے ہیں اور ہر کمرشل علاقے میں ’باربی‘ کے گلابی رنگ بکھیر دیے گئے ہیں چاہے وہ ملبوسات ہوں یا میک اَپ کا سامان۔

اطلاعات کے مطابق اس فلم کی مارکیٹنگ مہم پر 150 ملین ڈالر خرچ کیے گئے ہیں (فوٹو: عرب نیوز)

گذشتہ کئی ہفتوں سے ’باربی‘ سوشل میڈیا پر نہ صرف ٹرینڈ کر رہی ہے بلکہ سعودی عرب میں فلمیں دیکھنے کے شوقین افراد اس پر بات بھی کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
ایک فلم بین نے عرب نیوز کو بتایا کہ فلم ’باربی‘ پدرانہ اور صارفیت سے بھرپور رویوں جیسے معاملات پر گڑیاؤں کے استعمال کے ذریعے انتہائی آسان اور تفریحی انداز میں سمجھاتی ہے۔
محمد نامی فلم شائق نے مزید کہا کہ ’یہ خصوصاً خواتین کے لیے ایک تعلیمی فلم ہے جنہیں صحیح طرح سے معلوم نہیں ہوتا کہ بدقستی سے کیوں مرد ان کے حقوق کو پامال کرتے ہیں اور کیسے دورِ حاضر میں پدریت خواتین کی ترقی، خواب اورکچھ بڑا بننے کی خواہشات کو متاثر کرتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں مردوں کو اس فلم سے ضرور سیکھنا چاہیے، خصوصاً ان مردوں کو جو منفی رویے رکھتے ہیں اور خواتین کو ایک چیز سمجھتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جنہیں یہ فلم متنازع لگ رہی ہے کیونکہ انہیں اس سچ سے ڈر لگتا ہے جس کے بارے میں وہ جانتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے۔‘
فلم بینوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ تکنیکی طور پر اور کہانی کے اعتبار سے یہ ایک اچھی فلم ہے۔

فلم میں ’کین‘ کا کردار اداکار رائن گوزلنگ نے ادا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

مشاعل عبدالرحمان نامی خاتون فلم شائق کا کہنا تھا کہ ’اس فلم سے بچپن کی بہترین یادیں واپس آگئیں۔ جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ ہے کہ یہ فلم زندگی کو جینے سے متعلق ہے خصوصی طور پر مختلف انسانی جذبات کی روشنی میں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’متعد سینز ایسے تھے کہ میں لاجواب ہوگئی جیسا کہ جس طرح سے باربی اپنے آپ کو پہچاننے کا سفر کرتی نظر آئی کہ وہ دراصل چاہتی کیا ہے اور کین بھی۔‘
واضح رہے کہ فلم میں کین کا کردار رائن گوزلنگ نے ادا کیا ہے۔
کچھ فلم شائقین ایسے بھی ہیں جنہیں فلم نے زیادہ متاثر نہیں کیا۔ ایک خاتون نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’یہ بس اتنی بھی اچھی نہیں تھی۔‘
ان کے مطابق ’مجھے ایسا لگا کہ یہ ایک خوب صورت فلم ہے لیکن بنائی اچھے طریقے سے نہیں گئی۔ کچھ حصوں میں جلدبازی نظر آئی اور کچھ سینز غیر ضروری تھے، لیکن حرفِ عام میں اسے ایک جدید بلاک بسٹر فلم کہا جا سکتا ہے۔‘
نوریٰ السعدون نے بھی یہ فلم دیکھی ہے اور اس حوالے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ذاتی طور پر میں یہ سوچ کر یہ فلم دیکھنے گئی تھی کہ یہ ایک سنجیدہ فلم ہوگی۔ مجھے یہ ضرور پسند آیا کہ کس طرح باربی نوجوان لڑکیوں کے لیے ایک خواب پیش کر رہی ہے کہ وہ جو چاہیں بن سکتی ہیں لیکن فلم کی کہانی مجھے تھوڑی کمزور لگی۔‘

شیئر: