سعودی عرب میں ساڑھے تین لاکھ مطلقہ خواتین، طلاق کے اسباب کیا ہیں؟
رشتہ داروں کی مداخلت بھی طلاق کا باعث بن رہی ہے۔ (فائل: فوٹو سبق)
سعودی ماہر سماجیات طلال الناشری نے کہا ہے کہ’ معاشرے میں طلاق کے بڑھتے ہوئے واقعات پر ریسرچ کی ضرورت ہے۔‘
سبق ویب سائٹ کے مطابق طلال الناشری نے بتایا کہ’ 2022 کے حوالے سے محکمہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں مطلقہ خواتین کی تعداد ساڑھے تین لاکھ ہوچکی ہے۔ یہ اعداد وشمار الارمنگ ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’مطلقہ خواتین کی تعداد اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ یونیورسٹیوں کے ماہرین ذہنی اور سماجی پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر طلاق کے اسباب دریافت کریں اور صورتحال کا گہرائی اور گیرائی سے جائزہ لیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آخر طلاق کی شرح اتنی زیادہ کیوں بڑھ رہی ہے۔ مسئلے کا کیا حل ہو سکتا ہے اور طلاق کے بڑھتے ہوئے واقعات کو کیسے روکا جا سکتا ہے‘۔
طلال الناشری کا کہنا ہے کہ’ اس بات کی ضرورت ہے کہ ’شادی سے قبل منگنی کرنے پر خصوصی کورس کرائے جائیں۔ نئے جوڑے کو رشتہ زوجیت کی اہمیت، ضرورت اور اسے برقرار رکھنے میں معاون محرکات سے آگاہ کیا جائے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وزارت انصاف کے ماہرین کی نگرانی میں قومی پلیٹ فارم کا قیام ضروری ہے۔ اس پلیٹ فارم پر رسم و رواج اور ذہن و مزاج سے ہم آہنگ افراد لڑکے یا لڑکی کے والدین سے مل کر رشتے کی کارروائی کرانے میں مدد گار بنیں اور شادی کے بعد اختلافات کی صورت میں انہیں کم کرانے میں تعاون کر سکیں‘۔
انہوں نے طلاق کی شرح بڑھنے کے عام اسباب کے حوالے سے بتایا کہ ’ جوڑے کے درمیان اعتماد کا فقدان، ذہنی و جسمانی تشدد بڑی وجہ ہے۔ مالی مسائل بھی طلاق کا باعث بن رہے ہیں۔ نئے جوڑے آمدنی کے ذرائع میں کمی پر بھی طلاق کا فیصلہ کرلیتے ہیں۔ نشے کی لت بھی طلاق کے اسباب میں سے ایک ہے‘۔
سعودی ماہر سماجیات نے کہا کہ’ رشتہ داروں کی مداخلت بھی طلاق کا باعث بن رہی ہے۔ اولاد کے نہ ہونے سے بھی فریقین طلاق کا فیصلہ کرتے ہیں‘۔