بلوچستان کی بیورو کریسی میں اختلافات اور احتجاج پر ’انتظامی بحران کا خدشہ‘
بلوچستان کی بیورو کریسی میں اختلافات اور احتجاج پر ’انتظامی بحران کا خدشہ‘
پیر 21 اگست 2023 19:36
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
بلوچستان میں انتظامی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ فوٹو: اردو نیوز
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں فیلڈ میں تعیناتی کے معاملے پر بیورو کریسی میں اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں۔ سول سروسز کے ایک گروپ کی حمایت میں پٹوار ایسوسی ایشن کی ہڑتال کی وجہ سے صوبے کے تمام کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے دفاتر میں کام بند ہوگیا ہے۔
ان اختلافات کے باعث صوبے میں انتظامی بحران پیدا ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔
بلوچستان میں سرکاری انتظامی امور چلانے کے لیے سول سروسز کے دو کیڈر بلوچستان سول سروس (بی سی ایس-ایگزیکٹیو برانچ) اور بلوچستان سیکریٹریٹ سروس (بی ایس ایس) وجود رکھتے ہیں۔
اس وقت ڈپٹی کمشنر، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے عہدوں پر بلوچستان سول سروس کے افسران تعینات کیے جاتے ہیں تاہم وزیراعلیٰ بلوچستان نے پہلی بار سول سیکریٹریٹ کے افسران کو فیلڈ میں ضلعی انتظامیہ کے افسران کے طور پر تعیناتی کی منظوری دی ہے جس کے خلاف دوسرے بلوچستان سول سروس کے افسران سراپا احتجاج ہیں۔
بی سی ایس آفیسرز ایسوسی ایشن نے گزشتہ روز کوئٹہ میں احتجاجی ریلی نکالی اور وزیراعلیٰ اور چیف سیکریٹری بلوچستان کے دفاتر کے باہر جمع ہو کر خاموش احتجاج کیا۔ احتجاج میں کئی اضلاع کے ڈپٹی کمشنر، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کی سطح کے افسران بھی شریک ہوئے۔
بی سی ایس ایگزیکٹیو برانچ کے افسران کامؤقف ہے کہ سول سیکریٹریٹ کے افسران کو چور راستے سے فیلڈ میں تعینات کرنے کی سازش کی جا رہی ہے، ان کی فیلڈ میں ڈی سی، اے ڈی سی اور اے سی کی پوسٹوں پر تعیناتی غیر قانونی ہے۔
دوسری جانب سول سیکریٹریٹ افسران کا مؤقف ہے کہ جب فیلڈ کے افسران تعداد میں کم ہونے کے باوجود فیلڈ پوسٹوں کے ساتھ ساتھ سیکریٹریٹ میں تعینات ہوسکتے ہیں تو سیکریٹریٹ کیڈر کے آفیسرز فیلڈ میں کیوں کام نہیں کر سکتے۔
بی سی ایس آفیسرز ایسوسی ایشن کے عہدیدار ڈاکٹر خدائے رحیم میروانی کا کہنا ہے کہ عبدالقدوس بزنجو حکومت نے جاتے جاتے آخری دن غیر قانونی طریقے سے قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر سول سیکریٹریٹ سروس کے افسران کی فیلڈ میں تعیناتی کی منظوری دی جس کی وجہ سے صوبے کا انتظامی ڈھانچہ تباہ ہوجائے گا اور بحران پیدا ہوجائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ بیورو کریسی میں پیدا ہونے والے اس مسئلے کے حل کے لیے21 رکنی کمیٹی بنائی گئی تھی جس کی رپورٹ پر صرف 4 ممبران کے دستخط تھے۔ سابق وزیراعلیٰ جام کمال نے یہ رپورٹ واپس بھیج کر تحفظات دور کرنے کی ہدایت کی تھی مگر چند افراد نے عبدالقدوس بزنجو سے آخری دن اس ہی رپورٹ پر منظوری لے لی۔
ڈاکٹر خدائے رحیم میروانی کے مطابق پبلک سروس کمیشن بلوچستان میں مقابلے کے امتحان دینے کے بعد کامیاب امیدواروں کو دو مختلف سروس کیڈر یعنی بی سی ایس اور بی ایس ایس میں تعینات کیا جاتا ہے، سیکشن آفیسر صرف سول سیکریٹریٹ کے لیے جبکہ اسسٹنٹ کمشنر فیلڈ کے لیے بھرتی ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ دونوں کیڈرکے افسران کی تربیت، فیلڈ اٹیچمنٹ اور امتحان وغیرہ سب کچھ علیحدہ ہیں۔ اسی طرح ہر ایک گروپ کے تقرر و تبادلے بھی الگ کئے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر خدائے رحیم کے مطابق بلوچستان سول سروس ایگزیکٹیو برانچ کے افسران ضلعی سطح پر انتظامی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں ہیں جن میں ہنگامی صورتحال، امن و امان کے معاملات، الیکشن، مردم شماری، ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ، صحت اور تعلیم کے معاملات شامل ہیں۔ جبکہ سول سیکریٹریٹ کے افسران سیکریٹریٹ کے دفتری اور دیگر حکومتی امور انجام سرانجام دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اب حکومت نے بغیر کسی تربیت اور تجربے کے دفاتر میں کام کرنے والے سول سیکریٹریٹ کے افسران کو فیلڈ میں کام کرنے کی منظوری دی ہے جو غیر قانونی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیکریٹریٹ سروس میں شامل سازشی گروہ محض احتجاج اور ساز باز کے ذریعے ایگزیکٹیو سروس میں شامل ہونا چاہتے ہیں جبکہ سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کےمطابق کسی بھی کیڈر کا دوسرے میں انضمام غیر قانونی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کو واپس نہ لیا گیا تو پرامن احتجاج کا راستہ اختیار کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔
بی سی ایس گروپ کے احتجاج کی حمایت کرتے ہوئے بلوچستان بھر کے تمام اضلاع میں ضلعی انتظامیہ کے دفاتر میں پٹوار ایسوسی ایشن اور آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن نے ایک ہفتے سے ہڑتال شروع کر رکھی ہے۔
پٹوار ایسوسی ایشن کے صدر اسد مری کا کہنا ہے کہ ہمارے افسران نے ’کام چھوڑ ہڑتال‘ شروع کر رکھی ہے جس کی وجہ سے تمام سرکاری امور ٹھپ ہو کر رہ گئے ہیں، اگر مطالبہ تسلیم نہ کیا گیا تو ہم احتجاج میں مزید شدت لائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پٹواری کی حیثیت سے بھرتی ہونے والے افسران کو قانون گو، نائب تحصیلدار، تحصیلدار اور پھر اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے تک پہنچتے پہنچتے اب بیس سال لگ جاتے ہیں۔ وہ اس دوران امتحانات دے کر آگے بڑھتے ہیں جبکہ سول سیکریٹریٹ میں کلرک بھرتی ہونے والے افراد بغیر امتحان کے صرف احتجاج اور دباؤ کی بنیاد پر گریڈ سترہ کے آفیسر بن جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اب یہ آفیسرفیلڈ میں آکر اسسٹنٹ کمشنر اور دیگراعلیٰ عہدوں پرتعینات ہوں گے تو ہماری ترقی اور پوسٹنگ متاثر ہوگی۔ اس طرح ہمیں 30 سال میں بھی ترقی نہیں ملے گی۔
دوسری جانب بلوچستان سول سیکرٹریٹ آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر عبدالمالک کاکڑ کا کہنا ہے کہ سیکریٹریٹ کے افسران کو فیلڈ میں تعینات کرنا قطعاً غیر قانونی نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ انتظامی ڈھانچے میں تبدیلیاں لائی جاتی ہیں اس لیے وقتا فوقتا قوانین میں ترامیم کی جاتی ہیں، حکومت نے قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے فیلڈ پوسٹنگ کی منظوری دی ہے۔
عبدالمالک کاکڑ کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ کی منظوری کے باوجود اب تک چیف سیکریٹری اور سیکریٹری ایس اینڈ جی اے ڈی نے نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا، اگر نوٹیفکیشن جاری نہ ہوا تو سخت احتجاج کریں گے۔
مالک کاکڑ کے مطابق سیکریٹریٹ کے 900 افسران ہیں جن میں سے نئے فیصلے کے تحت صرف ساٹھ کی فیلڈ میں تعیناتی ہوگی، اس فیصلے سے بی سی ایس کے افسران کی سینیارٹی یا پرموشن پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
سیکریٹریٹ گروپ کے افسران کا مؤقف ہے کہ باقی صوبوں کی طرح یہ بلوچستان میں سول سروسز کے لیے واحد کیڈر پروونشل مینجمنٹ سروس (پی ایم ایس ) کے نفاذ کی جانب قدم ہے جس سے صوبے میں مستقبل میں بیورو کریسی میں پائی جانے والے بے یقینی ختم ہوگی۔
تاہم بی سی ایس گروپ کا مؤقف ہے کہ سندھ میں سول سروسز کے دو گروپس کا اسی طرح انضمام کر کے پی ایم سی بنایا گیا تو عدالت نےاسے غیر قانونی قرار دیا۔ اگر بلوچستان میں پروونشل مینجمنٹ سروس بنانا ہے تو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی طرز پر صوبائی پبلک سروس کمیشن کے مسابقتی امتحان کے ذریعے نئے سرے سے اس کی تشکیل کی جائے۔