Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاسی اختلافات بالائے طاق، لیبیا کے شہری امدادی سرگرمیوں میں پیش پیش

سمندری طوفان اور سیلاب کی تباہی نے ہزاروں افراد کو بے گھر کر دیا ہے۔ (فوٹو:اے ایف پی)
سابق رہنما معمر قذافی کا تختہ الٹنے کے بعد لیبیا سیاسی تقسیم کا شکار ہے تاہم سمندری طوفان ’دانیال‘ کے بعد لوگ سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔
دارالحکومت طرابلس کے رہائشی محمد بن نور نےخبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جیسے ہی ہم نے اس خوفناک سانحے کے بارے میں سنا تو متاثرین کی مدد کے لیے تاجورا میں ایک مہم شروع کی۔ اس میں ریاست کی حمایت شامل نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ پیر کے بعد سے تقریباً 70 ہزار دینار کے عطیات اور جمعے کو 20 ہزار سے زیادہ کے عطیات بھیجے جا چکے ہیں۔
30 سالہ محمد بن نور نے کہا کہ لوگ اشیائے خوردونوش، صفائی، حفظان صحت کی چیزیں، کپڑے اور ادویات دے رہے ہیں۔
طوفان دانیال ملک کے مشرقی حصے سے ٹکرانے کے بعد درنہ شہر میں دو ڈیم ٹوٹ گئے تھے۔ یہ ایک تباہ کن صورتحال تھی جس کی وجہ سے کئی رہائشی علاقے اور مکین بحیرہ روم میں بہہ گئے۔
مشرقی لیبیا کو چلانے والی انتظامیہ کے وزیر صحت عثمان عبدالجلیل کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد تین ہزار 166 ہے تام حتمی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
انٹرنیشنل آرگنازئزیشن آف مائیگریشن کے اعداد وشمار کے مطابق سیلاب سے بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 38 ہزار ہے اور صرف درنہ میں 30 ہزار بے گھر ہوئے ہیں۔

طوفان دانیال ملک کے مشرقی حصے سے ٹکرانے کے بعد ڈرنا میں دو ڈیم پھٹ گئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

لیکن لیبیا میں مشرق اور مغرب کے درمیان سیاسی تقسیم کی وجہ سے ان لوگوں کو امداد ملنا زیادہ پیچیدہ ہو گیا ہے جنہیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
ملک میں آج دو حریف انتظامیہ ہیں، ایک مغرب میں دارالحکومت طرابلس میں جس کی سربراہی وزیراعظم عبدالحمید دیبہ کر رہے ہیں اور اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت ہے۔ دوسری انتظامیہ مشرق میں ہے جس کی سربراہی طاقتور عسکری رہنما خلیفہ حفتر کر رہے ہیں۔
متاثرین کی مدد کے لیے اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے لیبیا کے عوام ملک بھر میں عطیات جمع کر رہے ہیں جبکہ رضاکار بھی تباہ شدہ علاقوں میں پہنچ گئے ہیں۔
بہت سے رضاکاروں کو امید ہے کہ یکجہتی کا یہ احساس برقرار رہے گا۔

شیئر: