آپ نے سڑکوں پر اکثر سرکاری نمبر پلیٹ والی گاڑیوں کو دیکھا ہو گا جو انتظامی افسروں کو محکمانہ امور انجام دینے کے لیے دی جاتی ہیں۔ وہ مگر ان کا ذاتی استعمال کرنے سے کبھی نہیں ہچکچائے۔
آپ نے یقیناً کسی بھی گاڑی پر ’ٹیکس گزاروں کی ملکیت‘ یا عوام کی ملکیت‘ کی عبارت نہیں دیکھی ہو گی۔
مزید پڑھیں
-
کیا پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کی قیادت گلگت بلتستان میں روپوش ہے؟Node ID: 766876
-
گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں سیاحوں کی گاڑی کو حادثہ، چھ ہلاکNode ID: 780026
گلگت بلتستان کی حکومت نے مگر اس حوالے سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جس کے بعد اب شمالی علاقہ جات کی ہر سرکاری گاڑی پر یہ عبارتیں لکھی ہوئی نظر آئے گی جس پر سالانہ سات ارب روپے کا خرچہ آتا ہے۔
چیف سیکریٹری گلگت بلتستان محی الدین وانی نے تمام سرکاری محکموں کو اس حوالے سے مراسلہ بھجوا دیا ہے جس میں یہ عبارتیں گاڑی کے بونٹ اور دروازوں پر واضح الفاظ میں لکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
نوٹیفکیشن کے مطابق یہ فیصلہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ تمام محکموں پر لاگو ہو گا اور اس فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں متعلقہ افسر سے گاڑی واپس لے کر اس کے خلاف محکمانہ کارروائی بھی کی جائے گی ۔
یہ اقدام کیوں کیا گیا؟
چیف سیکریٹری گلگت بلتستان محی الدین وانی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سرکاری گاڑیوں کے غیر ضروری استعمال کو روکنے کے لئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ اب کوئی بھی سرکاری گاڑی میں اپنے خاندان کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولت فراہم نہیں کر سکتا یا غیر ضروری طور پر استعمال نہیں کرے گا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’دوسرا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس فیصلے سے سرکاری افسروں کو یہ احساس ہو گا کہ یہ گاڑیاں پبلک پراپرٹی ہیں۔‘

چیف سیکریٹری نے کہا کہ ’میں نے سب سے پہلے اپنی گاڑیوں پر یہ عبارتیں پرنٹ کروائی ہیں اور اب تک 400 سرکاری گاڑیوں پر یہ عبارتیں پرنٹ کی جا چکی ہیں جن میں ایکسائز، وائلڈ لائف، ایڈمنسٹریشن، بلدیات اور محکمہ آب پاشی کی گاڑیاں شامل ہیں۔‘
ان کے مطابق ’یہ عبارتیں پرنٹ کروانے کے فیصلے کا اطلاق تمام چھوٹی بڑی گاڑیوں پر ہو گا۔‘
مقامی صحافی بشارت حسین کے مطابق سرکاری افسروں کے بچے ان سرکاری گاڑیوں کا بے دریغ استعمال کرتے تھے اور اکثر اوقات وہ نمبر پلیٹ تبدیل کر کے یہ گاڑیاں اسلام آباد بھی لے جاتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’اس وقت حکومت کے زیرِاستعمال گاڑیوں کی تعداد چار ہزار سے زیادہ ہے جن میں سے 1500 کے قریب غیر رجسٹرڈ ہیں جن کو رجسٹر کرنے پر کام ہو رہا ہے۔‘
