Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیلی سکیورٹی فورسز اور حماس میں دوسرے روز بھی لڑائی جاری

اسرائیلی افواج حماس کے عسکریت پسندوں کو پیچھے دھکیلنے کے لیے دوسرے روز بھی جنگ لڑ رہی ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق اتوار کو دوسرے روز بھی غزہ اور اسرائیلی علاقوں میں جنگ جاری ہے۔ سنیچر کو غزہ کا محاصرہ توڑتے ہوئے حماس کے عسکریت پسندوں نے قریبی اسرائیلی آبادیوں پر اچانک حملہ کر دیا تھا جس کے بعد اسرائیل نے غزہ کی شہری آبادی پر بمباری کر کے متعدد عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا تھا۔
اس دوران اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ اُن کا ملک حالتِ جنگ میں ہے۔
سرکاری چینل کان، ٹی وی چینل 12 اور اخبار ہاریٹز اور ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق حماس کے حملوں سے اسرائیل میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 60 ہوگئی ہے۔
تاہم ہلاکتوں کے بارے میں حکومت کی جانب سے اب تک بیان یا تصدیق سامنے نہیں آئی ہے۔
فلسطینی حکام کے مطابق اسرائیل کے حملوں کے نتیجے میں عزہ میں اب تک 300 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
دوسری جانب غزہ سے اسرائیل پر حماس کے عسکریت پسندوں کے حملے اور اسرائیلی قصبوں میں شہریوں کی ہلاکتوں پر اسرائیل کے اعلیٰ دفاعی عہدیداروں کو بڑھتے سوالات کا سامنا ہے کہ یہ سب کیسے ہو گیا۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق یہ حملے سنہ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے 50 سال مکمل ہونے کے ایک دن بعد کیے گئے۔
یہودیوں کے تہوار یومِ کپور کے موقع پر سنہ 1973 میں شام اور مصر کے ٹینکوں کی ایک بڑی تعداد نے اسرائیل کے زیرِ قبضہ علاقوں پر حملہ کیا تھا جس نے اسرائیلی فوج کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔
اسرائیل کی نیشنل سکیورٹی کے سابق سربراہ جنرل گیورا ایلاند نے صحافیوں کو ایک بریفنگ میں بتایا کہ ’اس وقت جو ہو رہا ہے ایسا ہی 1973 میں بھی ہوا تھا۔ اسرائیل ایک زبردست منصوبہ بندی سے کیے گئے حملے پر ششدر رہ گیا تھا۔‘
اسرائیل کی فوج کے ترجمان نے ایک بریفنگ میں سوالات کے جواب میں کہا کہ انٹیلیجنس پر بھی بات ہوگی مگر اس وقت تمام توجہ جنگ لڑنے پر ہے۔ ’ہم اس پر بھی بات کریں گے جب ہمیں اس پر بات کرنے کی ضرورت ہوگی۔‘
اسرائیل کی حکومت حماس میں برسرِ اقتدار حماس کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتی ہے تاہم سنہ 2021 میں دس روزہ جنگ کے دوران غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کے بعد اسرائیلی حکام نے چاروں طرف سے محاصرے میں گھرے غزہ کے شہریوں کے لیے ’گاجر اور ڈنڈے‘ کی حکمت عملی اپنا رکھی تھی۔
اسرائیل نے اس دوران غزہ کا محاصرہ جاری رکھا اور فضائی حملوں کے خوف کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں محصور فلسطینی شہریوں کو اسرائیلی علاقے یا مقبوضہ مغربی کنارے میں کام کے لیے پرمٹ بھی جاری کیے۔
گزشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں جب مغربی کنارے میں پُرتشدد واقعات ہوتے رہے اس دوران غزہ میں نسبتا خاموشی رہی۔ علاقے میں سرحد کے ساتھ چند معمولی جھڑپیں دیکھی گئیں جو زیادہ تر چھوٹے عسکریت پسند گروپ اسلامک جہاد نے کیں، حماس اس دوران مکمل طور پر ایک طرف رہی۔
اسرائیل میں نیتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت ہمیشہ سے حماس سمیت فلسطینی عسکریت پسندوں گروپس کے خلاف سخت پالیسی پر عمل پیرا رہی اور اپنی سکیورٹی کے حوالے سے بڑے اقدامات کرتی رہتی ہے۔
حماس سنہ 2007 سے غزہ میں برسرِ اقتدار ہے۔

’انٹیلیجنس کی ناکامی‘

جب وقت آیا تو اسرائیلی انٹیلیجنس اور سکیورٹی کے اقدامات ناکام ہو گئے اور سرحد پر حفاظتی باڑ کو توڑتے ہوئے حماس کے سینکڑوں عسکریت پسند قصبوں میں پھیل گئے۔

اسرائیل کی فوج کے ترجمان نے سوالات کے جواب میں کہا کہ انٹیلیجنس پر بھی بات ہوگی۔ فوٹو: روئٹرز

مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی حکومت کے سابق ڈپٹی نیشنل انٹیلیجنس افسر جوناتھن پینیکوف نے کہا کہ ’یہ انٹیلیجنس کی ناکامی ہے، یہ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔‘
ان دنوں اٹلانٹک کونسل تھنک ٹینک سے منسلک جوناتھن پینیکوف کا کہنا تھا کہ ’غزہ کے لیے اسرائیل کی جارحانہ اور کامیاب سمجھی جانے والی پالیسی کی مکمل ناکامی ہے، یہ سکیورٹی کی ناکامی ہے۔‘
اسرائیلیوں کے لیے قصبوں کی سڑکوں پر لاشیں اور فوجیوں کو غزہ میں بطور قیدی جاتے دیکھنے کی تصاویر اور ویڈیوز ہولناک ہیں جنہوں نے اُن کو صدمے میں مبتلا کر دیا ہے۔
اب تک 250 سے زائد اسرائیلی ہلاک اور ڈیڑھ ہزار سے زائد زخمی ہیں۔ یہ کسی بھی جنگ میں ایک دن میں اسرائیلیوں کے مارے جانے یا زخمی ہونے کی سب سے بڑے تعداد ہے۔
اسرائیل کی فوج کو بھی بڑا نقصان پہنچا ہے اور فلسطینی عسکریت پسندوں نے متعدد کمانڈروں سمیت درجنوں کو یرغمال بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔

شیئر: