مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے بشیر میمن کو سندھ میں بنائی گئی 12 رکنی کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ (فوٹو: فیس بک ن لیگ)
پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ میں مسلم لیگ ن اپنی تنظیم سازی کے لیے سرگرمیاں تیز کر رہی ہے جس کے لیے فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سابق سربراہ بشیر میمن کو میدان میں اُتارا گیا ہے۔
مسلم لیگ نواز کے اس فیصلے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی نے فی الوقت الیکٹ ایبلز پر انحصار نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن حال ہی میں مسلم لیگ نواز میں شامل ہوئے ہیں جنہیں سابق وزیراعظم نواز شریف کی واپسی پر سندھ کی ذمہ داری دی گئی ہے۔
بشیر میمن کون ہیں اور مسلم لیگ ن سندھ کے سینیئر رہنماؤں کو سابق ڈی جی ایف آئی اے کے ماتحت کام کرنے کے احکامات کیوں دیے گئے ہیں؟
بشیر میمن کا تعلق وادی مہران سندھ سے ہے، انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم سندھ سے ہی حاصل کی اور مخلتف عہدوں پر فرائض انجام دینے کے بعد ایف آئی اے کے سربراہ کے عہدے پر ترقی پائی۔ انہوں نے 2017 سے 2019 تک ایف آئی اے میں ڈی جی کی حیثیت سے کام کیا۔
دھیمے لہجے اور مضبوط اعصاب کے حامل بشیر میمن کا شمار ایف آئی اے کے ان افسروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی سروس کے دوران حکومت وقت کے فیصلوں کے خلاف آواز بلند کی۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت میں ایف آئی اے کے سربراہ کے طور پر فرائض سر انجام دیے۔ مگر انہوں نے اپنی ملازمت کی مدت مکمل ہونے سے قبل ہی ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔
سابق حکومت کی جانب سے بشیر میمن کی پینشن اور دیگر مراعات بھی روک لی گئی تھیں جو بعد میں عدالتی احکامات پر بحال کر دی گئیں۔
سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے سابق وزیراعظم عمران خان اور دو وفاقی وزرا پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے اپوزیشن جماعت کے رہنماؤں کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کرنے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا تھا۔
انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ’موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس بنانے کے لیے بھی حکومتی وزرا نے ان پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی تھی۔‘
بشیر میمن کے ان الزامات کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے جوڈیشل کمیشن بنانے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔
اس سے قبل سندھ میں محکمہ پولیس میں فرائض سرانجام دینے والے بشیر میمن کو سندھ کی اہم شخصیت کے قریبی دوست کے خلاف کارروائی کرنے پر بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ وہ ان دنوں ڈی آئی جی حیدرآباد کے عہدے پر کام کر رہے تھے مگر ان کا تبادلہ بلوچستان کر دیا گیا۔
بشیر میمن نے ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد رواں سال ستمبر میں پاکستان مسلم لیگ ن میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی۔
مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے انہیں تنظیم میں خوش آمدید کرتے ہوئے سندھ میں بنائی گئی 12 رکنی کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ اس کمیٹی کی بنیادی ذمہ داری سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی وطن واپسی پر ان کا استقبال کرنا ہے۔
اس کمیٹی میں ان کے ساتھ سابق گورنر سندھ محمد زبیر، نہال ہاشمی اور کھیل داس کوہستانی سمیت دیگر رہنما شامل ہیں۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ بشیر میمن ایک اچھی ساکھ کی حامل شخصیت ضرور ہیں، لیکن انہوں نے خود کو آزمائش میں ڈال لیا ہے۔
جامعہ وفاقی اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر توصیف احمد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بشیر میمن اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے کی وجہ سے لوگوں میں ضرور جانے جاتے ہیں، لیکن وہ ایک سیاسی شخصیت نہیں ہیں اور انہیں جو ذمہ داری دی گئی ہے وہ بھی حیران کن ہے، مسلم لیگ ن کی جانب سے انہیں جو پہلا ٹاسک دیا گیا ہے وہ میاں محمد نواز شریف کا استقبال کا ہے۔‘
توصیف احمد کے مطابق یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے جس کو نبھانے کے لیے عوام کے درمیان وقت گزارنے والے فرد کی ضرورت ہوتی ہے، جو لوگوں کے درمیان رہا ہو اور اسے صوبے کے تنظیمی معاملات کی مکمل آگاہی بھی ہو۔
توصیف احمد کا مزید کہنا تھا کہ ’ماضی میں کئی بیوروکریٹس اور پولیس افسروں سمیت دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے سیاست میں قدم رکھا ہے۔ کچھ نے اپنی سیاسی جماعت بھی بنائی تو کچھ کسی جماعت کا حصہ بنے۔ لیکن ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے جو سیاسی طور پر کامیاب ہو سکے۔‘
’زیادہ تعداد ایسے افراد کی ہے جو اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں مقام رکھنے کے باوجود سیاست میں اپنی کوئی شناخت بنانے میں ناکام رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ ممکن ہے کہ بشیر میمن کو سندھ میں کوئی اہم تنظیمی عہدہ بھی دیا جائے کیونکہ مسلم لیگ ن سندھ میں اپنا تنظیمی ڈھانچہ مضبوط کرنے پر کام کر رہی ہے اور آئندہ انتخابات سے قبل سندھ سے اچھے امیدوار لانے کے لیے سرگرداں ہے تاکہ کچھ نشستیں سندھ سے حاصل کرنا بھی ممکن ہو سکے۔‘
جامعہ کراچی شعبہ پولیٹیکل سائنس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد علی کا کہنا ہے کہ ’آئینی طور پر بیوروکریسی کو غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ کسی بھی عہدے پر فائز افسر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کی انجام دہی کے دوران کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف جھکاؤ نہ رکھتا ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’تاریخ میں کئی بیوروکریٹ سیاست کا حصہ بنے ہیں، یہ عام سی بات ہے۔‘
انہوں نے سندھ میں بشیر میمن کے ن لیگ میں شمولیت کے فیصلے پر کہا کہ ’انہوں نے ایک مشکل فیصلہ لیا ہے۔ یہ زیادہ بہتر ہوتا کہ جماعت کے تھنک ٹینک کا حصہ بنتے۔ سندھ میں تنظیم سازی آسان نہیں ہو گی، ماضی کی اتحادی پیپلز پارٹی آئندہ انتخابات میں ن لیگ کے مد مقابل ہو گی اور سندھ کی سیاست میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہو گا۔‘