Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مینار پاکستان میں ’دہشت گردی‘ کا منصوبہ اور صنم جاوید کیس کی فائل ’سوات میں‘

سینیئر وکیل آفتاب باوجوہ کے مطابق عدالتی فیصلوں سے پولیس سیکھ نہیں رہی ہے۔ (فوٹو: فلکر)
لاہور میں سپریم کورٹ کی رجسٹری برانچ میں ایک دم خاموشی چھا گئی۔ تین رکنی بینچ سے ایک گرجدار آواز میں پوچھا گیا اس کیس کا تفتیشی کہاں ہے؟ سرکاری وکیل کی اوٹ سے ایک قدرے بھاری بھر کم جسم کا حامل پولیس آفیسر نمودار ہوا اور سر جھکائے کھڑا ہو گیا۔
بینچ کے ایک رکن نے پوچھا یہ تفتیش آپ نے کی ہے؟ تفتیشی نے جواب دیا کہ انہوں نے نہیں کی بلکہ وہ اس وقت اس تھانے میں ڈیوٹی آفیسر ہیں جہاں اس کیس کی تفتیش ہوئی تھی۔
سپریم کورٹ رجسٹری میں یہ کیس شدت پسند مذہبی رہنما ملک اسحاق کا تھا اور بینچ کی سربراہی اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کر رہے تھے۔
تفتیشی کا جواب سننے کے بعد بینچ نے کہا کہ آپ کی سزا یہی ہے کہ اس تفتیش کو عدالت کے روبرو اونچی آواز میں پڑھیں تا کہ سب سنیں کہ پولیس کی تفتیش ہے کیا۔
تفتیشی افسر نے فائل کھولی اور ججز کی طرف سے بتائے جانے پر کیس میں شہادتوں کے صفحے سے ایک شہادت اونچی آواز میں پڑھنا شروع کی۔ مقدمے کا گواہ صابر (فرضی نام) کہتا ہے کہ ’میں مینار پاکستان کے سبزہ زار سے گزر رہا تھا کہ دو شخص آپسں میں سرگوشی کر رہے تھے۔ میں نے کان لگا کر وہ سرگوشی سننے کی کوشش کی تو میں نے سنا کہ ایک شخص دوسرے سے کہ رہا تھا کہ ملک اسحاق فلاں جگہ دہشت گردی کرانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔‘
ابھی مقدمے کا تفتیشی افسر یہیں تک پہنچا تھا کہ کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔ جج صاحبان نے پولیس افسر کو کہا کہ اگلی شہادت بھی پڑھو۔ انچارج انویسٹی گیشن نے دوسرے گواہ کی بابت شہادت پڑھنا شروع کی۔ مقدمے کا گواہ ذاکر (فرضی نام) کہتا ہے کہ ’میں لاہور ریلوے سٹیشن کے سامنے ایک ہوٹل میں دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے بیٹھا تو میری پچھلی نشست پر دو افراد سرگوشی کر رہے تھے کہ فلاں دہشت گردی ملک اسحاق نے کروائی ہے۔‘
ایک بار پھر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے اور ججز نے تفتیشی افسر سے پوچھا ’اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا خود بھی آپ کو اس بات پر یقین ہے جو آپ پڑھ رہے ہیں؟ تو تفتیشی نے نفی میں سر ہلادیا جس کے بعد معزز ججز کا کہنا تھا کہ پھر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ عدالتیں ملزمان کو چھوڑی دیتی ہیں جب اس طرح کی تفتیش اور اس طرح کی جعلی کہانیاں عدالتوں میں بیان کی جائیں گی تو کون ان پر یقین کرے گا۔‘
سپریم کورٹ نے ملک اسحاق کو ان تمام مقدمات میں بری کر دیا جن میں پولیس نے ناقص تفتیش کی تھی۔ ان پر 50 سے زائد دہشت گردی کے مقدمات درج تھے۔

سپریم کورٹ نے ناقص تفتیش کی بنا پر ملک اسحاق کو کئی کیسز میں بری کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ اس بات کا سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ صنم جاوید سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ یقینناً کوئی نہیں ہے لیکن پولیس کیسے تفتیش کرتی ہے اور عدالتوں میں کیسا مضحکہ خیز مواد پیش کرتی ہے اس بات سے ضرور تعلق ہے۔
تحریک انصاف سے وابستہ ایکٹوسٹ صنم جاوید جنہیں 9 مئی کے ہنگاموں کے بعد گرفتار کیا گیا ہے اور دو مرکزی مقدمات میں تو ان کو ضمانت مل چکی ہے تاہم ابھی وہ ایک اور مقدمے میں پولیس کی حراست میں ہیں۔
جمعرات کے روز لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت میں جب ان کا کیس لگا تو سرکاری وکیل نے عدالت سے التوا کی درخواست کر دی ان کا کہنا تھا کہ ’صنم جاوید کے کیس کی فائل پولیس کی اس ریڈنگ پارٹی کے پاس ہے جو اس وقت سوات میں مراد سعید کو گرفتار کرنے کے لیے گئی ہوئی ہے۔ چونکہ کیس کی فائل نہیں ہے اس لیے بحث بھی نہیں ہو سکتی۔‘
اس بات پر بھی عدالت میں قہقہے لگ گئے۔ تاہم عدالت نے سرکار کی درخواست منظور کرتے ہوئے کیس کی سماعت تین نومبر تک ملتوی کر دی۔
فوجداری مقدمات کے ماہر سینیئر وکیل اور سابق سیکریٹری سپریم کورٹ بار آفتاب باوجوہ کہتے ہیں کہ پولیس کی یہی غلط بیانیاں سب سے بڑا نقص ہیں۔ ’میں تین دہائیوں سے وکالت کر رہا ہوں اور بے شمار کیسز میں ایسے ہی لطیفے دیکھنے کو ملتے ہیں اور پولیس اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس طرح کی غلط بیانیوں سے نہ صرف مقدمات پر بہت برا اثر پڑتا ہے بلکہ اس کا فائدہ بھی الٹا ملزمان کو ہوتا ہے۔‘

دو مرکزی مقدمات میں صنم جاوید کی ضمانت ہو چکی ہے۔ (فوٹو: صنم جاوید ٹک ٹاک)

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس پر عدالتوں کی بڑی بڑی ججمنٹس بھی ہیں لیکن پولیس سیکھ نہیں رہی ہے۔‘
محکمہ پولیس میں 35 سال سروس کرنے والے سابق پولیس افسر محمد شرجیل جن کا زیادہ وقت تفتیشی شعبے میں گزرا ہے، کہتے ہیں کہ ’تفتیش کے شعبے کو جدید خطوط پر کبھی بھی استوار نہیں کیا گیا۔‘
’ہمارے محکمے میں تفتیشی افسر کا کام ہوتا ہے کہ صرف اس کے ذمہ جو کام ہے اس سے بس سبکدوش ہو حالانکہ یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے شواہد اکھٹے کرے جو کورٹ آف لا میں وہ ثابت بھی کر سکے۔ یہیں سے عدالت کے روبرو غلط بیانیوں کا آغاز بھی ہوتا ہے۔ اس کا حل ادارہ جاتی اصلاحات کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔‘

شیئر: