اسلام آباد ہائی کورٹ: وکلا کا عدالت میں گاؤن پہننا لازمی قرار، روایت کہاں سے پڑی؟
اسلام آباد ہائی کورٹ: وکلا کا عدالت میں گاؤن پہننا لازمی قرار، روایت کہاں سے پڑی؟
بدھ 15 نومبر 2023 15:29
ذیشان سید - اسلام آباد
جمعرات سے تمام وکلا عدالت میں گاؤن پہن کر پیش ہوں گے۔ فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے بدھ کو ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل اور سینیئر وکلا کو حکم دیا کہ بغیر گاؤن کے عدالتوں میں پیش نہیں ہونا چاہیے، اس کے ساتھ ہی عدالت نے کل جمعرات سے ہائی کورٹ میں وکلا کا گاؤن پہننا لازمی قرار دے دیا ہے۔
نظام انصاف میں کالے گاؤنز کے استعمال کا آغاز کب ہوا اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اس کو لازمی کیوں قرار دیا ہے، اس کی تاریخ سنہ 1327 سے شروع ہوتی ہے جب برطانوی بادشاہ ایڈورڈ III کے دور میں رائل کورٹ کے ججز مقدمات کی سماعت کے دوران یہ پہنا کرتے۔
اس کے بعد پندرویں صدی میں گاؤن کو فیشن کے طور پر استعمال کیا جانے لگا مگر فرق صرف اتنا تھا کہ نظام انصاف کے گاؤن کا رنگ کالا جبکہ پندرویں صدی کے فیشن گاؤن مختلف رنگوں میں دستیاب ہوتے۔
ایک تحقیق کے مطابق سنہ1637 میں وکلا نے معاشرے میں اپنا مقام بنانے کے لیے گاؤن یا کالے کوٹ کا استعمال شروع کیا کیونکہ گاؤن کو ایلیٹ طبقہ یعنی اشرافیہ استعمال کرتا تھا۔
سنہ 1694 میں برطانیہ میں تمام ججز نے ملکہ مِیری کے انتقال پر آخری رسومات میں بطور سوگ کالا لباس زیب تن کیا اور اس کے بعد یعنی سترویں صدی میں ہی برطانیہ میں وِگز اور کالے کوٹ کو وکیلوں اور ججز کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ کہا جاتا ہے کہ کالے کوٹ کو بطور دفاع استعمال کیا جاتا تھا۔
ماہر قانون اور وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل ہارون الرشید نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’گاؤن پہننا ایک روایت ہے۔ کنگ ایڈورڈ سوئم کے دور میں یہ رواج شروع ہوا جو گاؤن، لانگ رابز، شولڈر کور سمیت مختلف ناموں اور ڈیزائنز کے ساتھ استعمال کیا جاتا رہا اور اس گاؤن کا مطلب یہ تھا کہ یہ آزاد لوگ ہیں، یعنی گاؤن معاشرے میں عزت کی پہچان ہوا کرتا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان کی آزادی کے بعد بھی اس لباس کو جاری رکھا گیا بلکہ صرف لباس ہی نہیں بیشتر قوانین بھی برطانوی راج کے ہی اپنائے گئے۔‘
کالے گاؤن کی روایت برطانوی بادشاہ ایڈورڈ III کے دور سے شروع ہوئی تھی۔ فوٹو: رائل یو کے
ہارون الرشید کے مطابق ججز اور وکلا کے گاؤن میں فرق ہوتا ہے کیونکہ پاکستان میں ججز کے گاؤن کے اوپر براؤن یا سرخ پٹی لگی ہوتی ہے جبکہ وکلا سادہ گاؤن پہنتے ہیں۔
ماہر قانون جہانگیر جدون کا کہنا ہے کہ ’آزادی کے بعد پاکستانی عدلیہ نے برٹش راج کے نظام انصاف کے لباس سفید شرٹ اور کالے کوٹ کو ججز کے لیے بطور سرکاری لباس جاری رکھا مگر سنہ 1980 میں عدلیہ نے اس لباس کو موڈیفائی کر کے شیروانی کی شکل دے دی۔‘
ماہر قانون عمر اعجاز گیلانی کہتے ہیں کہ ’گاؤن پہننے کا یہ سلسلہ اندلس کے مسلمانوں سے یورپ میں رواج پایا جبکہ دور حاضر میں سفید شرٹ کو بطور ڈریس کوڈ بار اور بینچ استعمال کر رہے ہیں اور پاکستان میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ رولز میں ان کا ذکر بھی موجود ہے۔‘